کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 925
کبھی شائع ہوا ہو۔مجلے کی کمپوزنگ، مضامین کا انتخاب، موضوعات کا تنوع، تحقیق کا اسلوب و طریقہ کار، ادارہ جاتی اِفادات اور مناسب قیمت خرید میں سے ہر ایک چیز لائق تحسین اور قابل دید ہے۔یہ ایک ایسا رسالہ ہے کہ جسے ہر چھوٹی بڑی لائبریری کی زینت بننا چاہیے۔جو صاحب علم بھی قرآن اور علم قرا ء ت سے کچھ شغف رکھتے ہیں ، اس سے مستغنی نہیں ہو سکتے۔شنید ہے کہ اسی طرح کا ایک اور خصوصی قراءت نمبر بھی شائع کیا جا رہا ہے۔یہ ایک اچھی خوشخبری ہے۔اللہ تعالیٰ آپ حضرات کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے اور قرآن اور علوم قرآن کی خدمت میں آپ کی جملہ مساعی کو شرف قبولیت عطافرمائے۔
حافظ محمد زبیر
ریسرچ ایسوسی ایٹ‘ قرآن اکیڈمی ‘ لاہور
٭٭٭
تبصرہ رائے بر اشاعت ماہنامہ رشد ’قراءات نمبر‘(حصہ اوّل) لاہور جون ۲۰۰۹ء
’رشد ‘ کاخصوصی ’قراءات نمبر‘ موصول ہوا، فن قراءات کے مختلف پہلوؤں پر عمدہ مضامین ومقالات کاپر مغز مجموعہ ہے۔ علم القراءات جو نسبتاً ایک پیچیدہ موضوع ہے اس کی اِصطلاحات فنی اور عام لوگوں کے فہم سے بالا ہوتی ہیں ۔ مگر اس کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کا تعلق براہ راست نص قرآنی سے ہے، چنانچہ اردو زبان میں پیش کردہ اس کا وش کو جتناسر اہا جائے اتناہی کم ہے۔
یہ شمارہ قراءات کے تعارف، قرآن وحدیث سے اس کے ثبوت، سبعہ احرف کی وضاحت اور تعیین میں عالمانہ آراء اورمختلف روایات میں مطبوع مصاحف اور ان میں اختلاف قراءات کے تواتر پر مشتمل ہے۔ خصوصاً قراءات کی حقیقت سے جزوی یا ناقص معلومات رکھنے والے حضرات کے لئے یہ شمارہ ایک چشم کشا نسخۂ کیمیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ گو اسلامی مناہج تحقیق کے مطالعہ کے بعد مجھے شرح صدر ہے کہ کسی بھی غیر مختص کا کسی خاص فن میں نقد او رجداگانہ موقف کا وزن اور اعتبار نہیں ہوتا ، یہی وجہ ہے کہ رد ومعالجہ کے لئے مسلم محققین ہمیشہ اہل فن کی آراء کو ہی قابل بحث بناتے ہیں ۔ مثلا ابو حیان اندلسی نے فن قراءات کی توجیہات،بلاغت اور نحوی مسائل میں اگر کسی پرنقد وتبصرہ کیا ہے تو وہ صاحب کشاف امام زمخشری کی بعض آراء پر کیا ہے۔ کہیں ایسا نہیں دیکھاگیا کہ ایک غیر ماہر کی ہر زہ سرائیوں کو اہمیت دے کر انہوں نے اس کو قابل رد وقدح بنا لیا ہو۔
میری معروضات کامرکزی نکتہ عصر حاضر کے وہ دانشوران قوم ہیں جن کو اپنی فکر ودانش پر اس قدر زعم ہے کہ اس کے مقابلہ میں ایک عظیم تواتر بھی بے بس نظر آتا ہے ، ظاہر ہے کہ فن سے ناشناسی پھر تواتر کو چھوڑ کر اپنی دانش پر اصرار کوئی مناسب علمی رویہ نہیں ہے ۔ایک مبتدی بھی جانتاہے کہ اس فن کا تعلق خالصتاً مشافہت اور نقل پر مبنی ہے ، قیاس کو اس میں قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔
البتہ اس فن کی توجیہات میں عقل بھی استعمال ہوتی ہے، اس میں اگر رائے قائم کی جائے تو اس کا جائزہ دلائل کی بنیاد پر لینے میں حرج نہیں ، تاہم ان ’دانشوروں کی تحریرات میں توجیہ قراءات کے ضمن میں میرے مطالعہ کی حد تک کوئی قول سامنے نہیں آسکا۔