کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 922
موضوع سے متعلق اہم معلومات اور قابل ذکر تفصیلات سے معلوم نہیں ، کیوں صرف نظر کیا گیا ہے، پھر بھی اس ضمن میں بارش کا پہلا قطرہ ہونے اور روشنی کی پہلی کرن ہونے کی حیثیت سے ماہنامہ ’رُشد‘ کا خصوصی نمبر قابل تعریف ہے اور ہم ادارہ ’رُشد‘ کے حق میں دُعا گو ہیں ۔ (حافظ عبد العظیم اسد وارکان شعبہ علوم القرآن) دارالسلام ریسرچ سنٹر، لاہور ٭٭٭ ماہنامہ ’رشد ‘ لاہور کا قراءات نمبر قرآن اور علم قراءات دو الگ الگ موضوعات ہیں ۔ قرآن اللہ کا کلام ہے جبکہ علم قراءت قرآن مجید کی تلاوت کا علم ہے۔ جس میں قرآن مجید کوپڑھنے کے اندازاور طریقہ سے بحث کی جاتی ہے۔ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل2کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اَطہر پر نازل کیا۔ اسی طرح علم قراءات بھی حضرت جبریل2ہی کے توسط سے اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔ جس طرح قرآن مجید محفوظ ومصئون ہے اسی طرح علم قراءات بھی محفوظ ومصئون ہیں ۔ دونوں میں کمی بیشی ہوئی نہ آئندہ ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول قرآن مجید کوپڑھنے کے تمام طریق امت مسلمہ کے پاس چودہ صدیوں سے محفوظ چلے آ رہے ہیں ۔ ماضی بعید میں اس علم پر اکابر نے بہت توجہ کی ۔ اس کی تدریس وتعلیم باقاعدہ تھی۔ جس سے یہ علم نسلاً بعدنسل ہم تک پہنچا ہے۔ پاکستان میں سرکاری ودینی اداروں کی کمی نہیں ۔ پاکستان میں تعلیم کے لئے سرکاری ادارے بھی موجود ہیں اور لا تعداد دینی ادارے بھی علوم کی آبیاری میں مصروف ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات مسلم ہے کہ علم قراءات کی طرف وہ توجہ نہیں جو اس علم کا حق ہے ۔ دینی مدارس میں بیشتر تو ایسے ہیں جن میں سرے سے شعبہ تجویدوقراءات وجود ہی نہیں رکھتا۔ جن مدارس میں یہ شعبہ موجود ہے وہ صرف کسی ایک یا دو استاد کی ذات کے حوالے ہی سے قائم ہے۔ اگر وہ استاد کسی وجہ سے وہاں نہ رہے تو شعبہ تجوید کی بساط بھی لپیٹ دی جاتی ہے۔اس عدم توجہ کے باوجود یہ علم بحمد اللہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ ماہنامہ’رشد‘ ایک دینی جریدہ ہے۔ اس نے حال ہی میں قراءات نمبر کے عنوان سے مخصوص شمارہ شائع کیا ہے ، جو خاصا ضخیم ہے۔اس شمارے میں علم تجوید وقراءت پر انیس گراں قدر مضامین شامل ہیں جو نامور اہل علم کی قلمی کاوش کا نتیجہ ہیں ۔ ان مضامین سے علم وتجوید قراءت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ مضامین اس علم کی تحصیل کے لئے مہمیز کا کام دیتے محسوس ہوتے ہیں ۔ کچھ مضامین ایسے بھی ہیں جو ایسے حضرات کی تردید میں لکھے گئے ہیں جو اپنے بھول پن کی وجہ سے یا عدم آگہی کے سبب اس علم کی اہمیت سے نابلد ہیں اور جن کی فکر اس علم سے انکار کی حدوں کو چھو رہی ہے ۔ ان کی یہ سوچ منفی طرز عمل کی غماز ہے، کیونکہ قرآن اور قراءات دونوں منزل من اللہ ہیں ۔ قرآن فانی نہیں باقی ہے اور قیامت کے بعد باقی رہے گا۔ علم قراءات کی نسبت بھی چونکہ قرآن کے ساتھ ہے اس لیے قرآن کی نسبت اس علم کو بھی ہمیشہ زندہ رکھے گی۔