کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 917
٭٭٭ رشد کے بارے میں تاثرات اور گزارشات رب کائنات نے قرآن مجید کو انسان کی عملی زندگی کو عروجِ کمال سے ہمکنار کرنے کے لئے ہی نازل نہیں کیابلکہ اس کے نزول کا مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمان اس کی تلاوت سے دل کا قرار اور طبیعت میں ٹھہراؤ حاصل کریں ۔ دل میں قرار اور طبیعت میں ٹھہراؤ اس وقت پیدا ہوگا جب قرآن مجید کو کتاب اللہ سمجھ کر اس کے آداب کے مطابق پڑھا جائے ۔جس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہِ اُوْلٰئِکَ یُؤمِنُوْنَ بِہٖ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُوْلٰئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ [البقرۃ:۱۲۱] تلاوت جب اس کے حقوق اور آداب کے مطابق ہو تو آدمی اپنے رب سے ہم کلامی کی لذت محسوس کرتا ہے، جس سے اس کی طبیعت میں قرار اور دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید کے حروف کی صفات اور مخارج کا خیال رکھے۔ حروف مخارج کے خیال رکھنے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ آدمی اسے ایک فن کے طور پرتکلف کے ساتھ پڑھے ۔ رگوں کے پھولنے، کانوں پر ہاتھ رکھ کر پڑھنے، آنکھوں کو بار بار جھپکنے اور چہرے کا رنگ غیر معمولی طور پر تبدیل ہونے کو اہل تجوید نے تکلف قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے قراءت سے متعلقہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ تلاوت کے دوران قاری قرآن کو تکلف سے ہر ممکن طور پر گریز کرناچاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتداء میں تکلف کیے بغیر قرآن مجید کی تلاوت درست نہیں ہو سکتی، لیکن زندگی بھر بالخصوص نماز کی حالت میں تکلف کرنا کسی صورت جائز نہیں ہو سکتا ۔ الحمد للہ ہمارے کہنہ مشق اساتذہ کی غالب اکثریت تکلف سے پرہیز کرتی ہے ۔جہاں تک مسلک اہل حدیث کے حاملین میں تجوید کے فروغ پانے کا تعلق ہے اس کے بانی حضرت مولانا سیدداؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ تھے۔ جنہوں نے جماعت کے امیر اور ناظم اعلی ہونے کی حیثیت سے اہل حدیث حضرات بالخصوص علماء کرام میں تجوید کے ساتھ قرآن مجیدپڑھنے کا شعور پیدا کیا۔ حالانکہ اس زمانے میں کچھ سلفی علماء تجوید کو خلافِ شرع اور تکلف قرار دیتے تھے، لیکن حضرت سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانامحمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے نہ صرف فن تجوید کی سرپرستی فرمائی بلکہ دونوں بزرگوں نے اپنے ہاں تجوید کے شعبے قائم کیے۔ لاہور چینیا والی مسجد میں استاذ الاساتذہ حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کی خدمت حاصل کی گئیں اور گوجرانوالہ میں مولانا سلفی رحمہ اللہ نے قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کی زیر نگرانی شعبہ تجوید قائم فرمایا ،ان مدارس سے سینکڑوں قراء عظام فارغ التحصیل ہوئے جنہوں نے پر خلوص اور انتھک کوشش سے نہ صرف جماعت کے اندر ایک انقلاب برپا کیا بلکہ مجہول قرآن پڑھنے کے الزام کو اہل حدیث کے دامن سے دھو یا۔ اس کام کو نہایت ہی مربوط طریقے سے آگے بڑھانے میں قاری محمدشریف ، قاری محمد یوسف میرمحمدی، قاری نو احمد، استادِ گرامی قاری محمد اسلم، قاری محمد سعید آف سندھ تھے۔ ان کے ساتھ اور بعد میں اس کام کو جاری رکھنے والے مولانا قاری محمد عزیر حفظہ اللہ ، مولانا قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ ،قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ ، قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ ، قاری عارف بشیر حفظہ اللہ ، قاری صہیب احمد حفظہ اللہ ، اور