کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 91
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’زر بن حبیش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کون سی دو قراء تیں پڑھتے ہیں ۔ میں نے کہا عرضہ اَخیرہ کے مطابق پڑھتاہوں ۔ پھر کہا کہ نبی جبریل علیہ السلام سے ہرسال دور کیا کرتے تھے، لیکن آپ نے زندگی کے آخری سال دو مرتبہ دور کیا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس بات کی تائید کی اور ان کی قراءت اس کے مطابق تھی جو عرضۂ اَخیرہ میں باقی رکھا گیا‘‘۔ [النشر فی القراءات العشر] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب کامل تسلی ہوگئی کہ یہ قرآن ہے، آپ سے منقول ہے اور عرضہ اخیرہ میں اسے منسوخ نہیں کیا گیا تب انہوں نے اسے مصاحف میں لکھا اور جو اس کے علاوہ تھا اس کو چھوڑ دیا۔ مثلاً فامضوا وکان یأخذ کل سفینۃ صالحۃ غصبا۔ وأما الغلام فکان کافراً وغیرہ وغیرہ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے متعدد مصاحف تیار کئے، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان مصاحف کو حکومتی سطح پربڑے بڑے شہروں میں نافذ کرنے کاارادہ رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے امراء کی طرف مصاحف بھجوائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اثبات و حذف والے کلمات کو مصاحف میں متفرق طور پر لکھ دیا، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ احرف سبعہ پر مشتمل مصاحف کاارادہ رکھتے تھے لہٰذا کاتبین نے کلمات میں وہ رسم الخط اختیار کیا جس سے متعدد قراءات سمجھی جاتی تھیں ۔مثلاً فتبینوا۔ ننشرھا۔ اف۔ ھیت۔ أخویکم۔کومصاحف میں اسی طرح لکھ دیا۔ اور کچھ کلمات ایسے تھے جو مختلف قراءات میں مختلف تھے اور ان کو جمع کرنا ممکن نہ تھا لہٰذاصحابہ نے ان کلمات میں سے بعض کو بعض مصاحف میں اوربعض کو بعض مصاحف میں لکھ دیا۔مثلاً وأوصیٰ،ووصیٰ۔ سارعو، وسارعو۔ وبالزبر وبالکتاب،والزبر والکتاب۔ خیراً منھا، خیراً منھما۔ فتوکل، وتوکل۔ شرکائیھم، شرکائھم۔ تجری تحتھا، تجری من تحتھا۔اشد منکم۔ اشد منھم۔ بما کسبت، فبما کسبت۔ فان اللّٰہ ھو الغنی، فإن اللّٰہ الغنی۔ وغیرہ۔ مذکورہ طرز کے کلمات کو متفرق طور پرمصاحف میں لکھ دیا گیا۔اگر ان کلمات کی ایک صورت اصل اوراق پر اور ایک حاشیہ میں لکھ دی جاتی تو شایدسمجھا جاتاکہ حاشیہ میں غلط کی تصحیح کی گئی ہے۔ اگر یکے بعد دیگرے ان کلمات کو اصل میں لکھاجاتاتو ان کلمات کے اسی طرح نازل ہونے کاشبہ ہوسکتا تھا۔(لہٰذا اس طرح کے کلمات کو متفرق طور پرلکھ دیا گیا تاکہ اختلاف کاہرذریعہ مسدودکیاجائے) صحابہ نے مصاحف کو نقاط و اعراب سے بھی خالی رکھاتاکہ ایک کلمہ سے مختلف قراءات سمجھی جاسکیں ۔ دانی رحمہ اللہ نے ’المقنع‘ میں نقل کیاہے کہ اسی وجہ سے ابن مسعود وغیرہ مصاحف میں نقاط واعراب کو ناپسند سمجھتے تھے کیونکہ نقل کیاگیاہے کہ اپنے مصاحف کو(اعراب و نقاط وغیرہ) سے خالی رکھو۔ صحابہ نے مصاحف کو نقاط و اعراب سے خالی رکھاتاکہ آپ سے منقول مختلف وجوہ قراءات ان کلمات سے اَخذ کی جاسکیں (اس کی وجہ یہ تھی قراءت کا مدار اصل میں تو حفظ پر تھا نہ کہ صرف کتابت پر) لہٰذا یعلمون کو تعلمون فتبینوا کو فتثبتوا یقبل کو تقبل