کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 9
معاشرے کی اہم سرگرمیاں جنہیں آج ثقافت کانام دیا جاتاہے، روم ویونان کی تہذیبوں میں انہیں مذہبی سرگرمیاں شمار کیا جاتاتھا۔مثلاً رقص، موسیقی، شاعری، تھیٹر وغیرہ۔ ہندو معاشرے میں آج بھی یہ سرگرمیاں ہندؤں کے مذہبی اعمال کادرجہ رکھتی ہیں ۔ اصل کشمکش ان معاشروں میں پیدا کی گئی ہے جہاں الہامی مذاہب نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ہماری مراد یہودیت، عیسائیت اور اسلام سے ہے۔ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک درحقیقت ان علوم و فنون اور تہذیبی اقدار کے احیاء کی تحریک تھی جن کی جڑیں روم و یونان کی تہذیبوں میں تھیں جنھیں مسیحی چرچ کافرانہ تہذیبوں کانام دیتا آیا تھا۔یورپ میں بظاہر تصادم چرچ اور ریاست میں تھا، لیکن گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو یہ جنگ ’وحی اورعقل‘ یا مذہب اور لادینیت کے درمیان تھی۔ یہ درحقیقت اقتدار کو مذہبی قانون کے اثرات سے نکال کر عقلی قانون کے تابع کرنے کی لڑائی تھی۔ رفتہ رفتہ عیسائیت کو ایوان اقتدار سے بے دخل کرکے چرچ کی دیواروں تک محدود کردیاگیا اورمذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ٹھہرا۔ ریاست ہر طرح کا سیکولر قانون بنانے میں آزاد ہوگئی۔ ہمارے ہاں کا لادین اور مذہب بیزار طبقہ واضح طور اسلام کے مقابلے میں آنے کی جرأ ت تو نہیں کرتا، مگر اس نے حکمت عملی اور ہتھیار کے طور پر ’کلچر‘ کوآگے کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر وہ سرگرمی جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، اُسے ثقافتی سرگرمی کا تقدس عطا کرکے جائز قرار دے دیا جاتا ہے۔ دورِ حاضر میں موسیقی کوکسی بھی قوم کے کلچر کا مرغوب ترین عنصر گردانا جاتاہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے برقیاتی ذرائع ابلاغ میں موسیقی اور رقص و سرود کو جواہمیت دی جاتی ہے، اس سے ہرشخص واقف ہے۔ موسیقی کومسلمانوں کے لیے ’روح کی غذا‘ بنا کر پیش کیا جاتاہے۔ہمارے مسلمان راگ پسندوں کی اس شیطانی فکر کو بالعموم قبول کرلیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ مروجہ موسیقی ’روح کی غذا نہیں ‘ یہ نفس کی غذا ہے۔قرآن مجید کے تخلیق ارواح کے تصور کے مطابق جب عالم عدم میں اَرواح تخلیق کی گئیں تو خالق کائنات نے سوال کیا:﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾ یعنی کیامیں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ ارواح نے جواب دیا:﴿قَالُوْا بَلٰی﴾ کہا، ’ہاں ،ضرور‘۔ سیکولر موسیقی روحانی پاکیزگی کو سفلی جذبات سے مملو کرکے روح کو اپنے رب سے دور کرتی ہے۔ لہٰذا یہ ایک مسلمان کے لیے روح کی غذا نہیں ہوسکتی۔ پاکستان میں ریڈیو، ٹیلی وزن اور دیگر ذرائع ابلاغ جو موسیقی پیش کررہے ہیں ، اس کا سرچشمہ ہندو کلچر اور یونانی تہذیب ہیں ۔ ’’ألست بربکم‘‘ اور ’’قالوا بلیٰ‘‘ کے ترانوں کی ابدی نغمگی سے سرشار روحوں کے لیے سیکولر موسیقی روح کی غذا نہیں بلکہ روح کے لیے فساد اور تخریب کا باعث بنتی ہے۔ شیریں آواز بلا شبہ خدا کی نعمت ہے۔کسی بلند وبالا پہاڑ سے اترتی آبشار کا مسرورکن نغمہ ہو یاکسی گلے سے بلند ہونے والی شیریں اور مترنم آواز، یہ کانوں کی راہ سے گذر کر دل میں جب اترتی ہے تو انبساط اور نشاط کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ انسانی فطرت کا ایک داعیہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم سیکولر موسیقی سے کانوں کو محفوظ رکھنے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر کوئی اس کامتبادل بھی ہے جسے تجویز کیا جاسکے۔ بلاتامل کہا جاسکتا ہے کہ اس کا بہترین متبادل قرآن پاک کا ’صوتی جمال‘ ہے۔ دہلی کے ایک معروف سکالر اور قرآنیات کے ماہر مولانافاروق احمد خان اپنے مضمون ’قرآن کا صوتی اعجاز‘ میں بے حد خوبصورت الفاظ میں بیان کرتے ہیں :