کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 898
۱۰۔ تحفۃ الاطفال والغلمان،فی تجوید القرآن للجمزوری۔
۳۔ کنز المعانی، شرح حرزالأمانی، لابی عبداللّٰہ محمد بن احمد الموصلی المعروف بشعلۃ۔
۴۔ تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحمکہ لمحمد طاہر بن عبد القادر الکردی المکی الخطاط۔اس کتاب کی موصوف نے مراجعت فرمائی ۔ یہ قاہرہ سے طبع ہوئی ہے۔
۵۔ مجلۃ کنوز الفرقان۔
علامہ علی محمدالضبَّاع اس دینی علمی اور ثقافتی مجلے کے مدیر رہے اور اس مجلہ کا اداریہ موصوف ہی لکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ اس مقصدکو سامنے رکھتے کہ بڑے بڑے قراء کرام مل جل کر کام کریں اور علوم قرآن کو عوام الناس میں عام کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ الغرض مجلہ کنوز الفرقان میں موصوف کی قرآن و سنت کے لیے خدمات اس قدر ہیں جو موصوف کی نجات کے لیے کافی ہیں ۔
۶۔ القول السدید، فی احکام التجوید لأحمد حجازي، الفقیہ بمکۃ۔
یہ کتاب الشیخ حسین عبدالغنی رحمہ اللہ کی ہے جو قاہرہ سے طبع ہوئی اور علامہ علی محمد الضبَّاع رحمہ اللہ نے اس کتاب کی مراجعت اور تصحیح فرمائی۔
۷۔ فتح المعطی،وغنیۃ المقری فی شرح مقدمۃ ورش المصری لمحمد بن أحمد بن الحسن المعروف بالمتولی۔
موصوف نے اس کتاب کی تصحیح اور مراجعت فرمائی۔
علامہ علی محمدالضبَّاع رحمہ اللہ کی کتابت کردہ کتب
موصوف کے اعلیٰ اور نمایاں کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے علم قراءات پر بہت بڑی بڑی اور ضخیم کتب اپنے ہاتھ سے لکھیں اور یہ کام موصوف کے ساتھیوں کے رغبت دلانے پرانہوں نے کیا۔ اس کام کا مقصد علم قراءات میں استفادہ کوآسان اور سہل بنانا تھا۔خوشی کی بات یہ کہ موصوف کی خوش خطی بے مثال تھی۔ الغرض موصوف نے اس کام کو انتہائی اہم خیال کرتے ہوئے عرق ریزی سے انجام دیا۔ موصوف نے علم القراءات کی جوکتب کتابت کیں ان کے اسماء درج ذیل ہیں :
۱۔ المفردات للقراء السبعۃ۔ لأبی عمرو عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ
موصوف کی یہ تصنیف ۲۷۳ صفحات پر مشتمل ہے۔جس کو انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا۔ جس کا مخطوطہ علامہ علی محمدالضبَّاع رحمہ اللہ کی لخت جگرسیدہ ثریا' کے پاس تھا۔ موصوف کی یہ تالیف آپ کی زندگی میں ہی مکتبہ القرآن قاہرہ سے طبع ہوچکی تھی۔
۲۔ فتح المفضلات،لما تضمنہ نظم الشاطبیۃ والدرۃ من القراءات لابی عبید رضوان بن محمد سلیمان المخللاتی رحمہ اللہ
موصوف کی یہ تصنیف ۴۳۲ صفحات پر مشتمل تھی، جسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا اس کا مخطوطہ ’’جامعہ الملک عبدالعزیز‘‘ جدہ میں موجود ہے۔ اس کتاب کے آخر میں موصوف نے لکھا کہ ’’کتبہ لنفسہ ولمن