کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 89
آپ ہے۔ آذربائیجان یہ عراق کے مغربی پہاڑی سلسلہ کے مضافات میں آرمینیہ سے ملا ہواایک بہت بڑا شہر ہے۔ سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اہل حمص جنہوں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے قراءت حاصل کی تھی کو دیکھا جوکہہ رہے تھے کہ ان کی قراءت دوسروں سے بہتر ہے۔ اہل دمشق کی بھی یہی رائے تھی اور اہل کوفہ جنہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے قراءت حاصل کی تھی کا بھی یہی حال تھا اور اہل بصرہ جنہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے قراءت حاصل کی تھی ان کی بھی یہی حالت تھی اورمزید یہ کہ انہوں نے اپنے مصحف کا نام ’الباب القلوب‘ رکھا ہواتھا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ اس صورت حال سے گھبرا گئے۔ سیدھے مدینہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا اے امیرالمومنین! میں نے لوگوں کو قرآن میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک آدمی کھڑاہوتا ہے اورکہتا ہے کہ یہ فلاں کی قراءت ہے اور ’الوسیلۃ‘ میں ہے لوگوں نے تو قرآن میں اختلاف کیا ہیں۔ اللہ کی قسم مجھے ڈر ہے کہ کہیں انہیں بھی وہ چیز نہ آن لے جو اختلاف کی وجہ سے یہود و نصاریٰ کو آپہنچی تھی جب اہل کتاب کی طرح یہ کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی قراءۃ ہے اور یہ فلاں کی۔ آپ اس وقت کیا کریں گے لہٰذا اس سے پہلے کچھ کیجئے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار لوگوں کوجمع کیااور ان سے پوچھا تمہاراکیاخیال ہے اور ایک روایت میں ہے مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ لوگ ایک دوسرے پراپنی قراءت کو ترجیح دے رہے ہیں ، قریب ہے کہ یہ معاملہ کفر تک جاپہنچے بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے لوگوں نے کہا جو آپ چاہیں (ویسا کریں ) اور دوسری روایت میں ہے جیساکہ ’درہ‘ میں بھی ہے لوگوں نے جواب دیا جو آپ کی رائے وہی ہماری رائے ہے۔ آپ نے فرمایا میری رائے میں تو تمام لوگوں کو ایک مصحف پر اکٹھا کردیناچاہئے تاکہ اختلاف ختم ہوجائے تو لوگوں نے اتفاق رائے کا اظہار کیا۔ پھر آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مصحف منگوایا تاکہ اس سے مزید نقول تیارکی جاسکیں اور فرمایا یہ مصحف بعد میں واپس بھجوا دیں گے سو حفصہ رضی اللہ عنہا نے مصحف عثمان بھجوا دیا۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوسرے یا تیسرے سال ۲۵ہجری میں پیش آیا۔ امام جزری رحمہ اللہ کے بقول یہ واقعہ ۳۰ ہجری کے لگ بھگ کا ہیں ۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انصار میں سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور قریش کی ایک جماعت جن میں عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص، ابان بن سعید،عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم شامل تھے کوجمع کیا اور کہا سب سے اچھا کون لکھتا ہے؟ جواب ملا کاتب رسول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ،پھر فرمایا سب سے زیادہ اِعراب کون جانتا ہے اور ایک روایت میں ہے سب سے زیادہ فصیح لہجہ کس کا ہے؟ انہوں نے کہا سعیدبن العاص رضی اللہ عنہ کا ۔سو آپ نے فرمایا سعیدلکھوائے اور زیدلکھے اور ان سے کہا اس مصحف سے مزید مصاحف تیار کرو۔ اس کمیٹی کا سربراہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ سو صحابہ کرام نے بالاتفاق بغیر تقدیم و تاخیر اور نقص و زیادتی کے منزل قرآن مجید کو جبرئیل کی بتلائی ہوئی لوح محفوظ والی ترتیب کے مطابق دو گتوں کے درمیان کتابی شکل میں محفوظ کردیا۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صحابہ نے قرآن مجید بالکل اسی طرح تالیف کیا جس طرح انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ عرضہ اَخیرہ میں آپ کے ساتھ موجود تھے اور اسی ترتیب کے ساتھ اپنی وفات تک لوگوں کو پڑھاتے رہے۔ اسی وجہ