کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 882
غیر ہذا الفن،فإنی لا أحسب أن بلدا من بلاد الإسلام یخلو منہ،بل لا أظن أن بیت طالب علم یخلو من نسخۃ منہ‘‘ [غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء:۱/۲۸۵] ’’جو ان(امام شاطبی رحمہ اللہ ) کے قصیدہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ انہیں ودیعت کردہ علم کو پہچان لیتا ہے بالخصوص قصیدہ لامیہ(شاطبیہ) جس نے فصیح وبلیغ لوگوں کواس کی مثل پیش کرنے سے عاجز کر دیا اس کے مرتبے کو صرف وہی پہچان سکتا ہے جس نے اس نہج پر لکھنے کی کوشش کی یا اپنے لکھے ہوئے کا اس کے ساتھ تقابل کیا۔ اللہ نے اس کتاب کو ایسی شہرت اور قبولیت سے سرفرازا جو اس فن میں کسی اور کو نہ ملی بلکہ اس فن میں اور نہ ہی کسی اور فن میں ۔ میرے خیال کے مطابق کوئی بھی اسلامی ملک بلکہ کسی بھی طالب علم کا گھر اس کتاب سے خالی نہیں ہے۔‘‘ قصیدہ شاطبیہ کی خوبیاں شاطبیہ فن قراءات کا عجیب وغریب قصیدہ ہے اس کی لذتوں اور خوبیوں سے سے پوری طرح وہی حضرات واقف ہیں جو اس کے پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہیں ، لیکن عوام کے لیے ان میں سے چند خوبیاں پیش خدمت ہیں : ٭ پورا قصیدہ نظم میں ہے جوطبعی طور پر پسندیدہ ہوتا ہے۔ ٭ قصیدے کے الفاظ نہایت فصیح اور بلیغ ہیں ۔ ٭ تشبیہات ومجازات بھی استعمال کیے ہیں جن سے کلام کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ ٭ قصیدہ میں بہت سی پر اثر نصیحتیں بھی بیان کی گئی ہیں ۔ ٭ قراء تیں بیان کر کے بہت سے مواقع میں صرفی ونحوی اعتبار سے اس کی وجہ بھی بتلاتے ہیں جو عربی کے طلباء کے لیے خصوصی طور پر مفید ہیں ۔ ٭ چونکہ قراءات سبعہ کے تمام مسائل کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور تھوڑے الفاظ سے بہت سے مطالب نکالنے پڑتے ہیں اس لیے یہ نظم علمی واقفیت کے ساتھ طلباء کی عقل وفہم اور ذہانت میں بھی نمایاں ترقی کا باعث ہوتی ہے اور صرفی ونحوی اِستعداد میں بھی روز اَفزوں اِضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ٭ مخارج کے بیان میں ناظم نے اپنی خداداد ذہانت سے ایک انوکھا طرزِ اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے مصنفین تو ہر مخرج کے ساتھ یہ بھی بتاتے جاتے ہیں کہ اس سے فلاں فلاں حرف نکلتے ہیں ،لیکن ناظم نے ایسا نہیں کیا بلکہ ہر مخرج کے ساتھ اس کے حروف کی تعداد توبیان کی ہے کہ اس مخرج سے اتنے حروف نکلتے ہیں ، لیکن ان حروف کو متعین نہیں کیا کہ وہ کون کون سے ہیں ۔پھر مخارج ختم کرنے کے بعد دوشعروں کے ۲۶ کلمات میں انتیس کے انتیس حروف کو جمع کر دیا ہے اور کلمات سے ان کے حاصل کرنے کا طریق بھی بتا دیا ہے پھر لطف یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے جو کلمات استعمال کیے ہیں وہ بے معنی نہیں بلکہ ان میں قراءت اور قاری کے متعلق نہایت بااثر اور مفید مضمون بیان کیا ہے۔ ٭ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے اس قصیدہ میں عام مصنفین و مؤلفین کے طرز سے مختلف ایک بالکل نیا اور انوکھا انداز اختیار کرنے کے ساتھ اتنے اختصار سے کام لیا ہے کہ تھوڑے الفاظ میں بہت سے مطالب ومفاہیم کو سمو دیا ہے۔ الفاظ نہایت فصیح اور بلیغ استعمال کئے گئے ہیں ۔علاوہ ازیں تشبیہات واِستعارات اور مجازات ورموز نے کلام کے حسن کوچار چاند لگا دئیے ہیں ۔ اس لیے شاطبیہ کے متن سے اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے محض عربی زبان سے واقفیت ہی کافی نہیں