کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 881
کھڑے ہو کر خدمت بابرکت میں سلام عرض کیا اور کہا یاسیدی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قصیدہ پر نظر فرمائیے۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے دست مبارک میں لیا اور فرمایا :
’’ہی مبارکۃ من حفظہا دخل الجنۃ‘‘ [ظفر المحصلین بأحوال المصنفین:ص۷۱]
’’یہ بابرکت ہے جو اس کو حفظ کرے گا جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
شاطبیہ میں امام صاحب نے ایسے اشارات ورموز کا استعمال کیا ہے جن کو حل کرنا کسی عام انسان کے بس سے باہر ہے ان اسرار ورموز کی تہہ تک پہنچنے کے لیے عربی زبان کے علوم اور علم قراءات میں وسعت کی ضرورت ہے۔ [معجم علوم القرآن:ص۱۷۰]
بہت سے لوگوں کی طرف سے ’شاطبیہ‘ پر اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں ، لیکن یہ سب کے سب شاطبیہ کے شاندار اُسلوب بیان، تسلسل اور بلاغت کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں جو امام صاحب رحمہ اللہ کے بیان کردہ اسرار ورموز کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکے۔کتاب پر اعتراضات کرنے والوں میں سے ایک نام عبدالرحمن بن اسماعیل دمشقی المعروف ابی شامہ کا بھی ہے۔ جنہوں نے اپنی کتاب ’إبراز المعانی‘ میں امام شاطبی رحمہ اللہ پر بہت سے اعتراضات کیے ہیں ، لیکن ان اعتراضات کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر میں امام شاطبی رحمہ اللہ کا مؤقف درست اور اَقرب الی الحق ہے۔
علماء کرام کے ہاں قصیدہ شاطبیہ کا مقام
اس قصیدہ کو علماء کرام کس نظر سے دیکھتے ہیں ملاحظہ فرمائیے:
٭ امام محمد ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ولا أعلم کتابا حفظ وعرض فی مجلس واحد وتسلسل بالعرض إلی مصنفہ کذلک إلا ہو‘‘ [العبر:۴/۲۷۳]
’’میں اس کتاب(قصیدہ شاطبیہ) کے علاوہ کسی ایسی کتاب کو نہیں جانتا جو ایک ہی مجلس میں استاد پر پیش کی گئی اور زبانی یاد کی گئی ہو اور اس کی سند اس کے مصنف تک مسلسل سلسلہ کے ساتھ پہنچتی ہو۔‘‘
٭ ابن خلکان رحمہ اللہ یوں رقمطراز ہیں :
’’ولقد أبدع فیہـا کل الإبداع وہـی معـدۃ قراء ہذا الزمان فی نقلہم،فکل من یشتغل بالقراءات إلا ویقدم حفظہا ومعرفتہا،وہی مشتملۃ علی رموز عجیبۃ،وإشارات خفیۃ لطیفۃ،وما أظنہ سبق إلی أسلوبہا‘‘ [وفیات الأعیان:۴/۷۰]
’’انہوں نے یہ قصیدہ ایسے انداز میں لکھا جس کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہ ایک ایسا منظم قصیدہ ہے جس کو تمام لوگوں نے پڑھا ۔ جو کوئی قراءات کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے وہ پہلے اسے یاد کرتا اور سمجھتا ہے۔ یہ قصیدہ بہت ہی عمدہ رموزاور انتہائی لطیف اشاروں پر مشتمل ہے،میرے خیال میں اس اسلوب پر پہلے کوئی ایسا قصیدہ نہیں لکھا گیا۔‘‘
٭ امام ابن جزری رحمہ اللہ ایک مقام پر یوں رقمطراز ہیں :
’’علم مقدار ما آتاہ اللّٰہ فی ذلک خصوصا اللامیۃ التی عجز البلغاء من بعدہ عن معارضتہا فإنہ لا یعرف مقدارہا إلا من نظم علی منوالہا أو قابل بینہا وبین ما نظم علی طریقہا ولقد رزق ہذا الکتاب من الشہرۃ والقبول ما لا أعلمہ لکتاب غیرہ فی ہذا الفن،بل أکاد ولا فی