کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 84
قاضی ابن باقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قرآن جمع کرنا فرض کفایہ تھاجس کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے : ((لا تکتبوا عنی شیئًا غیر ھذا القرآن)) ’’مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ مت لکھو۔‘‘ اور اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿إنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْاٰنَہٗ﴾ ’’اس قرآن کاپڑھانا اور جمع کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘ سبب : اس کے پس منظرمیں مسیلمہ کذاب کا واقعہ ہے۔ جب اس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے دعوتِ توحید کا پیغام بھیجا تو اس نے نبوت کا دعویٰ کرڈالا اور اپنا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَقوال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کی اِطلاعات اس تک پہنچاتا تھا اور وہی منقول اَخبار وغیرہ مسیلمہ اہل یمامہ کے سامنے پڑھتا تاکہ وہ سمجھیں کہ یہ اسی پر نازل ہواہے۔ جب اس نے رحمن کا نام سنا تو اس نے اپنا نام بھی رحمن رکھ لیا۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مشہور و معروف ہوا تو اب اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ اسے اپنی طرف منسوب کرکے لوگوں کے سامنے بیان کرسکے تو اس نے قرآن میں اختلاط کرنے کی کوشش کی۔ مسیلمہ جادوگری میں معروف تھااور بہت فریبی اور کمینی طبیعت کا مالک تھا ۔نیز قراء کا سب سے بڑا دشمن بھی تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو مسیلمہ نے اپنے اوچھے پن کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی باطل اور جھوٹی خرافات کے ذریعے بنوحنیفہ کو مرتد بنا ڈالا۔جب اس بات کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوعلم ہواتو انہوں نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں چار ہزار گھڑ سواروں پر مشتمل لشکر روانہ کیا۔ دونوں جماعتوں میں مڈبھیڑ ہوئی اور گھمسان کارن پڑا۔ مسلمانوں میں سے ایک جماعت نے شہادت حاصل کی جن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بھائی زید رضی اللہ عنہ بھی تھے اور انہی شہداء میں سے سات سو قراء بھی تھے۔ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ پر حملہ کرکے اس کی فوج کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ اللہ کی مدد نازل ہوئی۔ مسلمانوں نے دشمن کی فوج کو شکست سے دوچار کیااور ان کا پیچھا کیا حتیٰ کہ انہیں ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔مسیلمہ کے ساتھیوں نے باغ میں داخل ہوکر خود پر دروازہ بند کرلیا۔براء بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال سے چھپتے ہوئے ان میں داخل ہوگئے اور انہوں نے مسلمانوں کے لیے دروازہ کھول دیا وہ اندر داخل ہوئے، انہوں نے مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کوقتل کردیا اور اس باغ کا نام’موت‘ رکھا گیا۔بخاری کی روایت کے مطابق مسیلمہ کوقتل کرنے والے وحشی رضی اللہ عنہ تھے اوروہ کہا کرتے تھے: ’’میں نے ایک بہترین آدمی(حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ) کو شہید اور بدترین آدمی(مسیلمہ) کو قتل کیا۔‘‘ امام شاطبی رحمہ اللہ اس واقعہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’عہد صدیقی رضی اللہ عنہ میں جنگ یمامہ میں مسیلمہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور وہ اس میں ناکام ہوا۔ شدید لڑائی کے بعد وہ میدان ہی اس کی قبر ثابت ہوا اور یہ لڑائی قراء پر بھی سخت بھاری تھی۔‘‘ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو روئے زمین سے قراء کے اُٹھ جانے کے ساتھ قرآن کے اُٹھ جانے کاخطرہ محسوس کرتے ہوئے اس سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آگاہ فرمایا اور قرآن جمع کرنے کا مشورہ دیا۔اسی بات کو امام ابوعمرووانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’المحکم‘میں اپنی سند کے ساتھ نقل کیاہے۔