کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 81
موسیٰ علیہ السلام ہیں اور اس میں فرعون کے قول ﴿إنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ﴾کا جواب ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کو مجنون کہا تھا۔ پس قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ میں فرمایا کہ مجھے اس بات کاپورا علم ہے کہ یہ اَحکام و آیات آسمان و زمین کے رب کے نازل کئے ہوئے ہیں اور کیا مجنون عالم ہوسکتا ہے پس عالم کو مجنون کہنے والا خود مرض جنون میں گرفتار ہے۔ ان مثالوں پر غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ضدیت اور منافات کسی بھی قراءت میں نہیں ۔ اگر ہمیں کسی قراءت کی ضدیت کاشبہ ہو تو وہ ہماری ہی کم فہمی اور کم علمی و کم عقلی کانتیجہ ہے جس سے کلام الٰہی بالکل بری اور پاک ہے۔ہر قراءت میں متفقہ مراد کی توجیہ ممکن ہے۔ جو قراءت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہوجائے اس کاماننا واجب ہے اور اس کو قبول کرنا لازم ہے اور اُمت میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ اس کو رد کرے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس امرپر یقین رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہر قراءت حق تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے، کیونکہ ہر قراءت کا تعلق دوسری قراءت کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک آیت کا دوسری آیت کے ساتھ ہیں۔ پس ہر آیت اور قراءت جس معنی پر مشتمل ہے اعتقاداً بھی اس کی پیروی کرنا ضروری ہے اور عملاً بھی اور یہ بھی جائز نہیں کہ دو قراء توں میں تعارض ومخالفت کاگمان کرکے ایک پرتو عمل کرلیاجائے اور دوسری کے حکم کو نظر انداز کردینے کاطرزِ عمل اختیار کیا جائے۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لا تختلفوا فی القرآن ولا تنازعوا فإنہ لایختلف ولا یتساقط....الخ ’’قرآن مجید میں جھگڑا نہ کرو،کیونکہ نہ تو اس میں اختلاف کی گنجائش ہے اورنہ کوئی حصہ اس کا حذف ہوسکتا ہے۔‘‘ چنانچہ فقہاء اور قراء کے اختلاف میں نمایاں فرق یہ ہے کہ فقہاء کا اختلاف اجتہادی ہوتا ہے اور قراء کااختلاف روایتی ہوتا ہے۔اس لیے فقہ کی اِختلافی وجوہ میں فی الواقعہ ایک ہی صحیح، حق اور راست ہے اور ہر مذہب دوسرے کی نسبت سے درست ہے، لیکن خطا کا احتمال رکھتا ہے جبکہ قراءت متواترہ کی اختلافی وجوہ میں سے واقع میں ہر ایک صحیح حق اور منزل من اللہ ہے اور کلام الٰہی ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ جس صحابی یا تابعی کی طرف اس کی نسبت ہے اس نے اس کو اسی طرح پڑھا اور اپنا معمول بنارکھا تھا اور وہ اس کے لیے اضبط و اقرا تھا یعنی اس کو سب سے زیادہ محفوظ رکھتا اور نہایت عمدگی سے پڑھتا تھا اور قراءت کے اماموں اور راویوں کی طرف قراءات اور روایات کی جونسبت ہوتی ہے اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ قاری یا راوی نے معتبر حضرات سے پڑھ کر ان وجوہ کو اختیار کرکے اپنے لیے لازم کرلیاتھا اور ہمیشہ انہیں وجوہ کو پڑھتا اور پڑھاتا تھا اور لوگوں نے اس سے اسی کو روایت کیا۔ معلوم ہواکہ قراءات کی کسی قاری یا صحابی کی طرف نسبت ترتیب، اختیار و لزوم اور ہمیشگی کی وجہ سے ہے اس لیے نہیں کہ انہوں نے ان وجوہ کو اپنے اجتہاد اوررائے سے خود بنا لیاتھا۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف وجوہ پڑھنے والوں میں سے ہر ایک کو أحسنت،أصبت اور ہکذا أنزلت فرما کر درست بتایا تھا۔ حدیث عمر رضی اللہ عنہ میں ہے کہ حضرت اُبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مسجدمیں آکر سورہ نحل پڑھی برخلاف اس کے جیسا کہ میں پڑھتاتھا۔ میں نے پوچھا کہ تجھے یہ سورت کس نے پڑھائی ہے تو کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے....پھر ایک اورشخص آیا اور اس نے بھی سورہ نحل پڑھی اور ہم دونوں کے خلاف تیسری طرح پڑھی میں نے جب اس سے پوچھا تو اس نے بھی وہی جواب دیا