کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 8
شاطبہ بھی مشرقی اندلس کاایک شہر ہے، امام صاحب کی پیدائش ۵۲۸ھ میں ہوئی۔ ۵۸۹ھ میں شاطبی رحمہ اللہ نے بیت المقدس میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ سے ملاقات کی تھی۔ تیسرے امام جزری رحمہ اللہ ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ کے بعد فن تجوید و قراءت میں جو بلند مقام آپ کو حاصل ہے وہ بلا شبہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ کے بعد اس فن پر آپ کی کوئی نظیر اب تک پیدانہیں ہوئی۔ علامہ جزری رحمہ اللہ ۷۵۱ھ میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے علم تجوید و قراءت کے لئے مختلف ملکوں کا سفر کیا اوروہاں کے علمائے وقت سے بھرپور استفادہ کیا۔ آپ نے مصر، شام اور ارض روم میں قراءت کی تدریس کی۔ آپ کے تلامذہ کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
امام جزری رحمہ اللہ کوتیمور لنگ اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ سمرقند میں تین برس تک تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ تمام ممالک اسلامیہ میں خصوصیت کے ساتھ آپ کو فن تجوید و قراءت کا امام تسلیم کیاگیا۔دیگر علوم حدیث و تفسیر اور فقہ و فتاویٰ کے اندر بھی آپ کو بلند مقام حاصل تھا۔ آپ نے متعدد علوم پرکتابیں تصنیف کیں۔ ان کی کتابوں کا تحقیقی مرتبہ بہت بلند ہے۔ فن قراءت پر ان کی معرکۃ الاراء کتابوں میں ’النشر فی القراءت العشر‘ اور ’المقدمۃ الجزریۃ‘کے پایہ کی کتب آج تک نہیں لکھی گئیں ۔ اس مضمون کامرکزی خیال اجازت نہیں دیتا کہ فن قراءت کے ارتقاء اور مجودین و اَساتذہ قراءت کی خدمات پر مزید کچھ لکھا جائے۔
قارئین کرام ! مجھے اس مضمون کے مرکزی خیال یعنی ’قرآن کا صوتی جمال اور اسلامی کلچر‘ کے متعلق رجوع کی اجازت دیجئے۔ راقم الحروف کاخیال ہے کہ اس اہم موضوع پر بوجوہ اب تک توجہ نہیں دی گئی۔ قرآن مجید کی تلاوت کو سیکولر اور مذہبی طبقات دونوں ایک مذہبی فریضہ کی ادائیگی اور ثواب کے حصول کاذریعہ سمجھتے ہیں ۔ اس کے برعکس گانا اور سیکولر موسیقی کی دیگر صورتوں کو کلچر ل سرگرمی سے تعبیر کیاجاتاہے۔ شاید قوالی کو ثقافتی اور شاید مذہبی عمل تصور کیا جاتاہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جس کی نظریاتی اساس ہی اسلام ہے، اس طرح کے تصورات کو قبول کیا جاسکتا ہے؟ اگر خالصتاً اُصولی بحث کا معاملہ ہو تو سرے سے یہ بات قابل بحث ہی نہیں ہونی چاہئے، مگر ہمارے معاشرے پرلادینی مغرب کے تصور ثقافت کے اَثرات اس قدر گہرے ہیں کہ ہم اس سے باہر نکلنے کو دشوار سمجھتے ہیں ۔
ڈاکٹر اجمل جالبی ، سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی پاکستان کے اہل دانش میں شمار ہوتے ہیں ۔ ادب وثقافت کے موضوعات پر ان کی متعدد تصانیف ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’پاکستانی کلچر‘ میں ایک نہایت دانش مندانہ بات کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’مذہب، کلچر کی سطح پر آئے بغیر ایک علم کتابی ہے،فلسفۂ اخلاق کا آدرش ہے اور بس۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ زندگی میں عملاً برتنے کے بغیر مذہب کے آدرشی نظام کی آدرشی شکل باقی رہی ہو۔ زندگی سے پورا رشتہ ناطہ قائم رکھنے کے لئے مذہب کی یہی تہذیبی شکل اصل و حقیقی شکل ہے۔‘‘ [ص ۱۳۴]
یورپ میں چرچ اور ریاست کی طویل کشمکش سے پہلے پوری انسانی تاریخ مذہب اور کلچر کے درمیان تفریق کاوجودنہیں ملتا۔ قدیم زمانے میں افراد کے باہمی تعلق کا معاملہ ہو یا ریاست اور شہریوں کے درمیان تعلق کی بات ہو، ان کے رہن سہن اورمعاشرت کی کوئی شکل یا اخلاقیات کے دائرے، سب اُمور مذہب کی میزان پر تولے جاتے تھے۔ بادشاہ یاعوام کے وہ اعمال جس کی مذہب کی طرف سے اجازت نہ تھی، ہمیشہ گناہ تصور کئے جاتے تھے۔ مغربی