کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 786
گئے اور اسے کہا کہ یہ شیخ پاکستان کا مقری کبیر ہے اوراس کے علاوہ میری بہت سی تعریف ان کے سامنے کی اور کہا میں اسے پاکستان لے جانا چاہتا ہوں ۔ ناصر عبودی کہنے لگے علامہ صاحب آپ ہمارے دوست اور سلفی بھائی ہیں ۔ ہم آپ کو کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتے۔ یہ امرمَلَکی ہے لہٰذا اس سال یہ اپنے ملک نہیں جاسکتا۔ اسی دوران حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ وہاں پہنچ گئے۔ میں نے ان کو سارا واقعہ سنایا۔انہوں نے بھی کافی تگ و دو کی لیکن کام نہ بن سکا۔ میرے پاس دو دفعہ حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ بھی تشریف لائے۔ انہوں نے پہلی بار مجھ سے سوال کیا تھا کہ سبعہ احرف سے کیا مراد ہے؟ تو میں نے جواباً کہا: ’’أوجہ مقروء ۃ مختلفۃ لا تزید عن السبعۃ‘‘ حافظ صاحب حفظہ اللہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے۔ میرے پاس بہت سے مشائخ کے تزکیے تھے ایک شیخ عامر تھے جو شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے خاص الخاص آدمیوں میں سے تھے، لیکن مجھے اس بات کا پتہ نہیں تھا۔ جب میں مدینہ سے فارغ ہوا توایک رحلہ نماس گیا۔یہ بہت ٹھنڈا علاقہ ہے۔ اس رحلہ میں میرا نام بھی زبردستی لکھ دیا گیا۔ وہاں پہنچ کر میں امامت اور تلاوتیں وغیرہ کرتا رہا۔ وہاں دارالحدیث مکیہ کا نائب مدیر زہرانی تھا اس کے ساتھ میری کافی واقفیت ہوگئی۔ میں نے چاہا کہ ان سے تزکیہ لکھواتا ہوں تاکہ بعد میں کسی موقع پر کام آسکے۔میں جب ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے شیخ عامر کے پاس بھیج دیا۔ شیخ عامر انتہائی سادہ آدمی تھے ہم ان کے پاس گئے تو وہ خود ہی تمام کام نپٹا رہے تھے حتیٰ کہ جو کام نوکر سے کروائے جاتے ہیں وہ بھی خود ہی کررہے تھے۔ میں نے کہا ان سے تزکیہ لے کر کیا کروں گا لیکن عبدالرب اور زہرانی کے اصرار پر میں نے ان سے تزکیہ لے لیا۔ میں نے اپنے کاغذات کے اوپر ان کا تزکیہ لگایااور کچھ دیگر لوازمات کے ساتھ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے سیکرٹری شیخ ابراہیم کے سامنے پیش کردیئے تاکہ ان کی طرف سے مبعوث ہوجاؤں ۔ شیخ صاحب میرے کاغذات دیکھتے رہے جب انہوں نے شیخ عامر کا تزکیہ دیکھا تو انتہائی خوش ہوکر گویاہوئے ’’ذکا لک شیخ، ذکا لک شیخ عامر‘‘ انہوں نے تین دفعہ یہ الفاظ دہرائے اور بقیہ کاغذ دیکھنے کے بغیر ہی لکھ دیاکہ یہ بندہ مبعوث ہے۔مجھے انتہائی حیرانی ہوئی کہ جس بندے کی میں پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں سمجھ رہا تھا اس کی اتنی اہمیت ہے۔ انہوں نے فوراً مجھے ہزار ریال کا چیک لکھ کر دے دیا۔ اس سے پہلے کے کچھ حالات میں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔ انہی دنوں ایک دیو بندی قاری اکبر شاہ بیت اللہ میں پڑھاتے تھے یہ صالح الحمید جوکہ بیت اللہ میں فجر کی نماز پڑھاتے تھے کہ ان کے استاد بھی تھے۔ اکبر شاہ صاحب بعض وجوہات کی بناء پر بیت اللہ سے چھوڑ کر چلے گئے۔ مجھے حافظ فتحی محمد صاحب نے کہا تمہیں اس کی جگہ پر بیت اللہ میں تجوید پڑھانے کی ذمہ داری سونپ دیتے ہیں ۔ میں نے کاغذات تیارکیے تو حافظ محمد فتحی صاحب مجھے لے کر مدیر صاحب کے پاس چلے گئے ۔ مدیر صاحب میرے کاغذات اور قراءات کی سندیں دیکھ کر خوش ہوئے اور کہا کہ ٹھیک ہے ہم آپ کو یہاں استاد رکھ لیتے ہیں لیکن میرا دل اندر سے مطمئن نہ تھا، کیونکہ میں سوچتا تھا کہ بیت اللہ رہنے کی جگہ نہیں بلکہ زیارت کی جگہ ہے، اور اگر وہاں پرعمل کا اجر بہت زیادہ ہے تو کوتاہی کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہے۔ انہوں نے میرے کاغذات جمع کرلیے اور کسی اور دن آنے کو کہا۔ مقررہ دن میں وہاں پہنچا تو مدیر صاحب تو موجود نہ تھے البتہ نائب مدیر صاحب ڈیوٹی پر