کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 785
اس کی تفصیل بتا دیں ؟ شیخ:مدینہ یونیورسٹی میں مجھے پتہ چلا کہ شیخ مرصفی رحمہ اللہ لڑکوں کو الگ پڑھنے کے لیے ٹائم دیتے ہیں ۔ ان سے میرا تعارف ہواتو میں نے پڑھنے کے لیے ٹائم مانگا۔ انہوں نے مجھے گھر آنے کا کہا۔ میں ان کے گھر گیاتو انہوں نے پہلے مجھ سے سنا اور سن کر بہت خوش ہوئے۔ اس وقت تمیم ذعبی ان سے پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ ان کے پاس اور بھی لڑکے پڑھنے آتے تھے اس لیے انہوں نے مجھے ایک دن کاٹائم دیا کہ ایک ہفتے میں ایک دن میرے پاس آجایا کرو، لیکن جیسے جیسے لڑکے فارغ ہوتے گئے میرا ٹائم بڑھتا گیا۔بالآخرہفتے کے سارے دن مجھے مل گئے۔ کلیہ میں چونکہ ہم نے پہلے سال طیبۃ النشر پڑھی تھی۔ اس کتاب کے ساتھ ایک خاص تعلق کی بنا پر میں نے شیخ صاحب رحمہ اللہ سے کہا کہ مجھے طیبۃ النشر بھی پڑھائیں ۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تم اس کتاب کا مطالعہ کرو اور ساتھ میں تمہیں ایک اور کتاب لاکر دیتا ہوں ۔ شیخ صاحب رحمہ اللہ نے مجھے’منہۃ المولی‘ لاکر دی۔ اس میں جو اختلافی کلمات شاطبیہ اور درہ وغیرہ میں موجود نہیں ہیں ، کا تفصیلی ذکر ہے۔ رشد: آپ شیخ مرصفی رحمہ اللہ سے کتنا عرصہ پڑھتے رہے؟ شیخ: تقریباً ساڑھے تین سال میں نے ان سے فیض حاصل کیا ہے اورعشرہ صغریٰ اور کبریٰ میں ان سے اجازہ حاصل کیا۔ رشد: آپ مدینہ یونیورسٹی سے کس سن میں فارغ ہوئے؟ شیخ: میں وہاں سے ۱۴۰۲ھ میں فارغ ہوا۔ رشد: فارغ ہونے کے فوراً بعد آپ پاکستان آگئے؟ شیخ: اس وقت مکہ مکرمہ میں تدریب المعلّمین کا کورس ہوتا تھا۔ میں نے وہاں انٹرویو دیا تو اس میں پاس ہوگیا۔لہٰذا ایک سال مکہ مکرمہ میں گزارا۔ میری شدیدخواہش تھی کہ میں اپنے والدین کو حج کرواؤں ۔ اس سلسلے میں کچھ پیسے جمع کرنے کے لیے میں نے ایک دیو بندی دوست قاری سے رابطہ کیا اور اس سے کہا کہ مجھے امامت کے لیے کوئی مسجد ڈھونڈ دیں ۔ انہوں نے مکہ میں مجھے ایک مسجد ڈھونڈدی۔ پھر اللہ کے فضل سے میں نے اپنے والدین کو وہاں بلوایا انہیں اپنے پاس رکھا اور حج کروا کے واپس بھیجا۔میرا وہ ایک سالہ کورس مکمل ہوا تو رابطہ عالم اسلامی والوں نے مجھے نائیجیر یا بھیجنے کافیصلہ کیا۔ کاغذات وغیرہ مکمل تیار ہوچکے تھے، لیکن میں نے وہاں جانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مجھ سے وجہ دریافت کیا تو میں نے کہا کہ میں نے اپنے ملک جانا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ پاکستان کیوں جاناچاہتے ہو، میں نے کہا کہ میں اپنے ملک میں تجوید و قراءات کا کام کرنا چاہتا ہوں ۔وہ کہنے لگے کہ پاکستان میں تمہارے سوا کوئی قاری نہیں ؟ میں نے کہا: موجود ہیں ۔ کہنے لگے کہ تم سے پاکستان کے بارے میں پوچھ نہیں ہوگی جہاں میں تمہیں بھیج رہا ہوں اس کے بارے میں ضرور پوچھ ہوگی۔وہاں تو کوئی قاری موجود نہیں ہے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں وہاں نہیں جاسکتا۔ انہی دنوں میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کسی دورے پر وہاں تشریف لے آئے ۔ میں نے اپنا معاملہ ان کے گوش گزار کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ کل تم مجھے ان کے دفتر میں ملنا۔ میں اگلے دن وہاں پہنچا تو علامہ صاحب رحمہ اللہ مجھے لے کر ناصر عبودی کے پاس چلے