کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 784
رسول صاحب جج تھے۔ اس مقابلے میں میری تیسری پوزیشن آئی۔قاری صاحب رحمہ اللہ کا شروع ہی سے مجھے اس طرف لگانے کا ذہن تھا۔
رشد: مدینہ یونیورسٹی کس طرح جانا ہوا؟
شیخ: مدینہ یونیورسٹی میں دوست پڑھتے تھے اور مصری قراء کی باتیں سناتے، جس سے مجھے بھی شوق پیدا ہوا۔میرے کافی سارے دوستوں نے مدینہ یونیورسٹی میں کاغذات بھیجے میں نے بھی کاغذات بھیجے، لیکن میرے اور ان کے کاغذات میں فرق یہ تھا کہ انہوں نے تو تصدیق کروا کے کاغذات بھیجے تھے جبکہ میں نے تصدیق کے بغیر ہی تجوید اور کچھ دیگر سندوں کے ساتھ کاغذات بھیج دیئے۔
مدینہ یونیورسٹی سے جواب یہ آیا کہ اس سال تو کوٹہ پورا ہوچکا ہے آپ اگلے سال کے لیے سعودی سفارتخانے سے اپنی سندوں کی تصدیق کروا کر بھیجیں ۔ میں سعودی سفارتخانے میں چلا گیا،لیکن تین دن تک میری وہاں شنوائی نہ ہوئی۔ چوتھے دن میں کچھ پیسے ساتھ لے کے وہاں پہنچ گیا۔ اچانک وہاں میری ملاقات عطاء اللہ ثاقب رحمہ اللہ سے ہوگئی۔ جنہوں نے ہدایۃ المستفید کا ترجمہ کیا اور چینیانوالی مسجد میں مولانا داؤد رحمہ اللہ کے نائب ہوا کرتے تھے۔ اوروہاں درس وغیرہ بھی دیتے تھے۔ مجھ سے کہنے لگے قاری صاحب آپ کدھر، میں نے مدعا بیان کیا تو انہوں نے کہا آؤ میرے ساتھ۔ انہوں نے جاکر انہیں کہا کہ یہ جماعت کے قاری ہیں اور اہلحدیث ہیں ان کی تصدیق کردیں ۔ انہوں نے مجھے اگلے دن آنے کاکہا۔ بالآخر انہوں نے میری سندوں کی تصدیق کردی۔لہٰذا میں نے کاغذات دوبارہ بھیج دیئے۔
حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ گوجرانوالہ میں میرے ساتھ پڑھتے رہے تھے۔ ان کا داخلہ ایک سال پہلے ہوچکا تھا۔ یہ میرے پاس آئے تو میں نے انہیں بتایا کہ میں نے کاغذات بھیجے تھے، لیکن واپس آگئے اب دوبارہ بھیجے ہیں تو وہ کہنے لگے۔ ہم شیخ ابن باز رحمہ اللہ کوخط لکھتے ہیں کہ وہ سفارش کردیں ۔لہٰذا زاہدی صاحب حفظہ اللہ نے میری طرف سے خط بنا کر شیخ ابن باز رحمہ اللہ کوبھیج دیا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے مدینہ یونیورسٹی میں میری سفارش کردی لہٰذا میرا داخلہ ہوگیا اور میں مدینہ پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اتفاقاً مجھے یونیورسٹی کا رجسٹر دیکھنے کا موقع ملا تو دیکھا کہ اس پر لکھا ہوا ہے۔ محمد ادریس عاصم اور آگے درج تھا کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس کی سفارش کی ہے، لیکن اس سال تو کوٹہ پُر ہوچکا ہے لہٰذا آئندہ سال اس کا داخلہ ہوگا یعنی اس سال میرا داخلہ بھی ہوا اور مجھ سے معذرت بھی کی گئی۔ داخلہ ۱۹۷۴ء میں ہواتھا۔
رشد: مدینہ میں آپ نے کتنے سال پڑھا؟
شیخ: ایک سال شعبہ میں پڑھا، جبکہ چار سال کلیۃ القرآن میں ۔
رشد: کلیۃ القرآن میں آپ کے اَساتذہ کون کون سے تھے؟
شیخ: شیخ عبدالفتاح المرصفی رحمہ اللہ ، شیخ سیبویہ، شیخ عبدالرافع رضوان، شیخ محمد جادو،شیخ عبدالفتاح القاضی، شیخ عبدالرزاق اور شیخ سالم محیصن میرے اساتذہ تھے۔
رشد: آپ نے کلیہ میں چارسال کے اندرعشرہ کبریٰ پڑھی؟ اس کے ساتھ ساتھ آپ علیحدہ کچھ پڑھتے رہے ہوں تو