کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 783
کتابیں پڑھانے والے مدرس چلے گئے تھے۔ مولاناہدایت اللہ رحمہ اللہ یہاں خطیب تھے وہ بھی جاچکے تھے۔جماعت والوں نے مجھے کہاکہ تم یہاں آجاؤاور کتابیں پڑھاؤ۔۱۹۷۶ء میں ،میں نے یہیں تدریس شروع کردی اور ساتھ ساتھ قاری اظہاراحمد رحمہ اللہ سے سبعہ مکمل کی۔ میں نے دو سال میں سبعہ مکمل کی اور تقریباً تین سال پڑھایا۔ رشد:دورانِ تعلیم آپ کی روحانی کیفیت کیسی تھی؟ شیخ:روحانیت تو جیسی کیسی بھی تھی البتہ میں علما کی خدمت کرتاتھا مثلاً حضرت حافظ محمدگوندلوی رحمہ اللہ کے پیچھے میں مغرب کی نماز ادا کرنے جاتا تھاجو ٹالی والی مسجد میں نماز پڑھاتے تھے۔نماز کے بعد آپ کچھ دیرذکر اذکار کرتے اور سنتیں گھر جاکر اداکرتے۔میں جلدی جلدی سنتیں ادا کرنے کے بعد ان کی جوتی اور لاٹھی پکڑتاان کے سامنے پیش کرکے پھر باتیں کرتے اورمسائل پوچھتے ہوئیگھر تک چھوڑتا۔۔ رشد: تجوید وقراءت کی جانب کیسے میلان ہوا؟ شیخ:تجویدو قراءات کی جانب میراذہن شروع ہی سے مائل تھا، کیونکہ ہماری رہائش چینیانوالی مسجد کے قریب تھی ، قاری اسماعیل اچھے لہجے میں پڑھتے تھے اس لیے میرا رجحان ادھر ہوا۔ جامعہ اسلامیہ میں اس سلسلے میں ،میں نے تقریباً دس بارہ لڑکے فارغ کئے ہیں ۔ رشد: آپ کے اندر تجوید و قراءات کا ذوق پیدا کرنے میں کس ہستی کاہاتھ ہے؟ شیخ: میرے استادو مربی قاری اظہار احمد رحمہ اللہ کا۔ چونکہ میں حفظ کے ساتھ ہی قاری اظہاراحمد رحمہ اللہ سے منسلک ہوگیا تھا اس لیے قاری صاحب رحمہ اللہ کی طرح میراذہن بھی تجویدو قراءات کی جانب مائل ہوگیا اور میں نے شروع سے ہی ان سے مشق شروع کر دی تھی۔ رشد: قاری صاحب رحمہ اللہ کی آپ پر خصوصی توجہ کی وجہ آپ کی آواز تھی؟ شیخ: قاری افضل صاحب جو مولوی غلام اللہ خان کی مسجد راولپنڈی میں ہوتے تھے ۔جو لڑکوں کو بڑے عجیب سے انداز میں اذان سکھاتے۔ادھر سے ایک لڑکا بھاگ کر یہاں چینیانوالی مسجد آگیا۔اس نے اس لہجے میں اذان دینا شروع کردی جو میرے ذہن میں بیٹھ گیا۔پھر میں نے بھی اسی لہجے میں بھرپور تیاری کے ساتھ اذان کہی اور اذان کے بعد باہر ٹہلنے لگ گیا کہ قاری صاحب رحمہ اللہ آکرمجھے داد دیں گے۔قاری صاحب رحمہ اللہ آئے تو انہوں نے مجھے بلایا، میں خوشی خوشی گیا کہ ان سے داد وصول کرتاہوں ۔ وہ کہنے لگے: ’’ادریس‘‘ کمبخت کہیں کے۔ اذان اس طرح دیتے ہیں ۔ نماز کے بعد میرے پاس آنا۔نماز کے بعد میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے اذان کی مشق کروائی اور مسلسل پندرہ دن حجازی لہجے میں مشق کرواتے رہے۔ قاری صاحب رحمہ اللہ مجھے مقابلہ حسن قراءات میں بھیجاکرتے تھے۔میں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں تھاکہ مجھے قاری صاحب رحمہ اللہ کا خط ملا،لکھا تھا۔’’فلاں تاریخ کو تم نے لاہور لازماً پہنچنا ہے۔ کوالمپور مقابلے میں تمہارا نام دے دیا گیا ہے۔‘‘ بادشاہی مسجد میں مقابلہ ہوا۔ قاری اظہاراحمد رحمہ اللہ ، حضرت حسن شاہ صاحب، قاری عبدالوہاب صاحب اور غلام