کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 780
مشق کرواتے تھے۔
رشد: آپ نے مکمل حفظ قاری صدیق رحمہ اللہ سے ہی کیا؟
شیخ: نہیں !قاری صاحب رحمہ اللہ نے وہاں تقریباً دو اڑھائی سال ہی پڑھایا تھاکہ جامعہ اشرفیہ والے انہیں تجوید کے لیے اپنے ہاں لے گئے۔ اصل میں یہاں شیخ شجاع الدین ہوتاتھا وہ بہت ظالم انسان تھا۔ اللہ اس کے حال پر رحم کرے۔بچوں کو شدید پیٹتا تھا۔ قاری صاحب رحمہ اللہ اس وجہ سے یہاں گھٹن محسوس کرتے تھے ۔قاری نور صاحب اب بھی ملتے ہیں تو پوچھتے ہیں شجاع الدین زندہ ہے یا مرگیا ہے؟ میں نے بتایا کہ مرگیا ہے تو کہتے، بڑا ظالم تھا وہ مجھے بڑے ٹھڈے مارتا اور پنکھا بند کردیتا ۔ایک بارایسا ہوا کہ اس نے لڑکوں پرسختی کی تو حافظ ایوب اور دو تین اور لڑکوں نے اسے پکڑکر شدید پٹائی کی اور مار مار کر اَدھ موا کردیا۔
قاری صدیق رحمہ اللہ جامعہ اشرفیہ چلے گئے تو قاری محمد دین صاحب میانوالی سے تشریف لے آئے۔قاری صاحب صبح کے وقت ٹھنڈا دودھ یا لسّی پیتے اور ساتھ میں پراٹھا کھاتے اس کے بعد وہ کلاس میں سوجاتے۔ قاری صاحب نے اپنے پاس چھانٹے کی سوٹی سجا کررکھی ہوتی جو لڑکا ان کو سنانے کے لیے آتااگر اس کے سبق میں اٹکن آتی تو وہ لاتعداد سوٹیاں رسیدکرتے۔اس دوران ایک چھوٹا سا واقعہ گوش گزار کرتاہوں :
میری والدہ مرحومہ مجھ سے کہنے لگیں کہ تمہارے جسم پر خشکی بہت ہورہی ہے۔پہلے جسم پر تیل ملو اوراچھی طرح نہا کے پھر جمعہ پڑھنے جاؤ۔والدہ نے جب قمیض اتاری تو میرے دونوں کندھے کالے تھے۔ میری دادی مرحومہ نے دیکھاتوکہنے لگیں : ’’منڈے دی اے جگہ کیوں کالی اے‘‘ میں نے کہا کوئی نہیں کالی۔ والدہ مرحومہ کہنے لگیں تم نے ضرور قاری صاحب کو سبق نہیں سنایا ہوگا ۔ تم سبق کیوں نہیں یاد کرتے ہو۔ حالانکہ اس میں میری غلطی کم تھی استاد جی کا مزاج ہی کچھ اس طرح کا تھا۔ خیر یہ قاری صاحب بھی ۱۹۶۳ء میں چلے گئے۔ قاری اظہار رحمہ اللہ بھی موتی بازار تشریف لے گئے۔ اس دوران ایک واقعہ سناتا ہوں ۔
قاری اظہار احمد رحمہ اللہ اور قاری صدیق رحمہ اللہ اکٹھے بیٹھ کر دوپہر کا کھاناکھایا کرتے تھے۔ قاری صاحب رحمہ اللہ مجھے حکم دیتے کہ جاؤ میرے گھر سے کھانا لے آؤ میں بھاگا بھاگا پرانی انار کلی جاتا اور کھانا لے آتا۔ دونوں حضرات کھانا کھا رہے تھے کہ اذان ہوگئی۔ ابھی چند لقمے ہی رہ گئے تھے کہ تکبیرشروع ہوئی اوپر سے شیخ ضیاء الدین آگیا اور من ترک الصلاۃ فقد کفر والی حدیث غلط ملط پڑھ کر چلا گیا۔ قاری صدیق رحمہ اللہ ذرا جذباتی تھے جبکہ قاری اظہار رحمہ اللہ انتہائی ٹھنڈی طبیعت کے انسان تھے۔قاری صدیق رحمہ اللہ قاری اظہار رحمہ اللہ سے کہنے لگے کہ دیکھاآپ نے،یہ ہمیں کافر بنا گیا ہے۔ قاری صاحب رحمہ اللہ کہنے لگے کہ وہ جاہل انسان ہے اسے کیا پتہ کہ تارک صلاۃ کیا ہوتاہے اور کافر کون ہوتا ہے، لیکن قاری صدیق رحمہ اللہ بضد تھے کہ جائیں مولاناداؤد رحمہ اللہ سے بات کریں ۔ قاری اظہار رحمہ اللہ ان کے کہنے پر مولانا داؤد رحمہ اللہ کے پاس گئے تو انہوں نے بھی یہی جواب دیاکہ یہ آپ کے مقام کو نہیں سمجھتا ،لیکن میں آپ سے اس کی طرف سے معذرت کرتا ہوں۔
رشد: قاری اظہاراحمد رحمہ اللہ کے موتی بازار جانے کی وجہ کیاتھی؟
شیخ :حضرت داؤد غزنوی رحمہ اللہ کا ۱۹۶۳ء میں انتقال ہوگیا انہوں نے ہی مدرسہ شروع کیا۔ بعدازاں جماعت والوں نے فیصلہ کیا کہ ہم کتب کامدرسہ کھولنا چاہتے ہیں توانہوں نے قاری صاحب رحمہ اللہ کو جواب دے دیا۔