کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 779
عبدالواحدغزنوی رحمہ اللہ وہاں خطیب تھے ان کو تو ہم نے نہیں دیکھا البتہ حضرت مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو اچھی طرح سے دیکھا ہے۔ آپ کاچہرہ اس قدر نورانی تھاکہ آدمی دیکھ نہیں سکتا تھا۔ میرے والدمحترم کی شدید خواہش تھی کہ میرا کوئی بیٹا بھی اس طرف آئے، بڑے بیٹے کو لگایا لیکن وہ نہ چل سکا۔ پھر مجھے لگایا ۔ وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ بیٹا!اس چینیانوالی مسجد کے محراب میں ،میں نے بڑے علماء کو رو رو کر دعائیں کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ چینیاں والی مسجد میں ستائیسویں رات کو قیام اللیل ہواکرتاتھا اور وتر حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ پڑھایا کرتے تھے۔ آپ اس دوران بہت زیادہ روتے اورمسجد میں کوئی بھی ایسانہیں ہوتاتھاجوروتانہیں تھا۔ ہم اس وقت بہت چھوٹے تھے، لیکن ہمارابھی رونے کو دل چاہتا۔تو میرے والدمحترم نے کہاکہ بیٹا! میں نے تمہارے لیے اس محراب میں اللہ سے دعا کی ہے کہ میرے بیٹے کو دین کے لیے چن لے۔ پرائمری کے بعد میں نے چینیاں والی مسجد ہی سے حفظ شروع کیا۔ تقسیم ہند سے پہلے یہاں قاری فضل کریم پڑھاتے تھے۔ان کا زمانہ ہم نے نہیں دیکھا۔ تقسیم سے پہلے پاکستان میں تجویدوقراءت کاسب سے پہلا مدرسہ چینیانوالی مسجد میں تھا۔ قاری عبدالماجد حفظہ اللہ کے والد قاری نور محمد اور قاری شریف بھی وہاں پڑھتے رہے ہیں ۔ رشد: اس دوران کوئی خوشگوار واقعہ ہوا ہو تو سنائیے؟ شیخ: ایک مرتبہ اسکول میں کچھ لوگ خشک دودھ لے کر آئے اور بنابنا کر لڑکوں کو پلانے لگے۔ میں نے بھی دودھ پیااور کچھ ساتھ گھر لے گیا اور والدہ سے کہا کہ میں دودھ لے کر آیا ہوں اسے بنادیں ۔ انہوں نے مجھے ایک چپت رسید کی اور کہنے لگیں : ’’ایہہ تے دل تے بہہ جائے گا پراں سُٹ اینوں ‘‘(یہ تو دل پربیٹھ جائے گا اسے دور پھینک دو) رشد: آپ نے حفظ کہاں سے شروع کیا؟ شیخ:میں نے چینیانوالی مسجد سے حفظ شروع کیا۔اس وقت قاری اسماعیل رحمہ اللہ اور قاری عبد الغفار رحمہ اللہ یہاں پڑھاتے تھے۔ قاری عبدالغفار رحمہ اللہ یہاں ناظرہ پڑھایا کرتے انہی کے پاس میں نے ناظرہ شروع کیا۔ ان کے ساتھ جماعت کا اختلاف ہوا تو یہ سامنے بریلویوں والی مسجد میں چلے گئے۔ ہم بھی ان کے ساتھ چلے گئے۔ رنگ محل شاہ عالمی سے دو منزل بس چلتی تھی۔ ہم گھر سے پڑھنے نکلتے تو راستے میں کہیں طوطے کا، توکہیں زبان کاٹنے کا کھیل ہوتا دیکھ کر وہاں کھڑے ہوجاتے جس کی وجہ سے مدرسے سے لیٹ ہوجاتے اور مدرسے میں جاکر سزا ملتی ۔ پھر رمضان شریف آگیا تو قاری اظہار رحمہ اللہ اور قاری صدیق لکھنوی رحمہ اللہ کا انتخاب ہوگیا۔ رمضان کی ستائیسویں رات میں حضرت مولانا داؤد رحمہ اللہ نے ان دونوں بزرگوں کو دعوت دی اور دونوں نے چار چار رکعتیں نماز پڑھائی۔ دونوں حضرات اتنا مسحور کن قرآن پڑھا کہ میں ان کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کے بعد قاری اظہاراحمد رحمہ اللہ چینیانوالی مسجد میں تشریف لائے تو میں نے پھر وہیں حفظ قرآن شروع کردیا۔ جب چینیانوالی مسجد میں قاری اظہار احمد رحمہ اللہ نے پڑھانا شروع کیاتو اہلحدیث طالب علم (۱) قاری محمد نور رحمہ اللہ (۲) قاری محمدیوسف رحمہ اللہ دو تھے، باقی دیوبندی۔ قاری یوسف رحمہ اللہ انتہائی نیک شخص تھے۔ چینیانوالی مسجد میں میرے استاد قاری صدیق لکھنوی رحمہ اللہ تھے جن سے میں حفظ کرتا تھا اور قاری اظہار احمد رحمہ اللہ حفظ کے لڑکوں کو