کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 777
لوگ سنتے ہوں تو مزید اچھی آواز میں قرآن کریم پڑھنے کی تاکید موجود ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت سنی تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری تلاوت سن رہا تھا، تم نے بہت اچھی تلاوت کی۔ تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مجھے علم ہوتا کہ آپ میری تلاوت سن رہے ہیں تو میں اور زیادہ خوش الحانی سے پڑھتا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کسی کے سامنے خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھنا منع نہیں ہے، لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ جب قاری کے اندر نہ تو نخوت پیدا ہو اور نہ ریا۔ میں یہاں ایک اور بات ذکر کرنا چاہوں گا کہ جتنا کام فقہ پر ہوا ہے اتنا تحقیقی کام قرآن مجید کے علوم پر نہیں ہوا، حالانکہ قرآن مجید ہماری شریعت کی پہلی چیز ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید لے کر آئے اور قرآن مجید کا پہلا حق یہی ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے۔ قرآن مجید کے خلاف غیروں نے اتنا کچھ بھر دیا ہے اور ہم نے اس سلسلے میں ابھی بہت تھوڑا کام کیا ہے۔ ابھی بھی ہمارے قاری حضرات کا زور اس کے حسن ِ تلاوت پر زیادہ ہے۔ قرآن مجید کے علوم کے بارے میں جو سوالات اٹھتے ہیں ہمارے قاری حضرات ان پر کام کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس لیے میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ قرآن مجید کے ان علوم پر جو خاص طور پر مستشرقین اور متجدِّدین نے لوگو ں کے اندر جو تشکیک پیدا کی ہے، سب سے پہلے اس کا ازالہ کریں ۔ اس کے بعد قرآن مجید کے علوم کا تعارف کرائیں ۔ اس کے تعارف کے اندر ایک بڑی چیز جو قراء توں کا تنوع ہے اس کے ساتھ قرآن مجید کے اندر کیا معنوی حسن پیدا ہوتا ہے اور قرآن مجید کے مفاہیم کے اندر کیا توسع اور عا لمیت پیدا ہوتی ہے، اس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کام کرنے کے لیے ابھی بہت بڑا میدان پڑا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس سلسلے میں کوئی کام نہیں ہورہا۔ سعودی عرب وغیرہ میں تو یہ کام ہورہا ہے، لیکن عالمی سطح پر یہ کام ہونا چاہیے ۔ میں جب قراءات کے بارے میں اہل علم قراء کی کتابیں دیکھتا ہوں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ برصغیر کے علماء قراء نے بڑا کام کیا ہے،لیکن جب میں عام قاریوں کو دیکھتا ہوں تو میری بڑی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ وہ نہ توقراء توں کے علوم سے اس طرح واقف ہیں اور نہ صحیح طرح قرآن مجید کے علوم ہی سے واقف ہیں ۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کوہمارا متعارف رواج بن جا نا چاہیے اور اس کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے قراءات کے طلباء کو میں خصوصاً یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قرآن مجید کو پڑھنے میں خشوع اور خضوع کا دھیان رکھیں اور قرآن مجید کی علمی خدمات کی طرف آگے بڑھیں اور اس وقت جوبھی علمی سوالات موجود ہیں ، ان کا باقاعدہ جواب دیں ۔ اس سلسلے میں ہماراکام اتنا کم ہے کہ ابھی تک سبعۃ أحرف کی تشریح عوامی نہیں بن سکی، یعنی لوگ ابھی تک اس میں الجھے ہوئے ہیں ، لہٰذا اس کو اتنا متعارف کرانا چاہیے کہ یہ چیز عوامی بن جائے۔ جب تک کوئی چیز عوامی نہ بنے اس وقت آپ سمجھیں کہ وہ ’عرف‘ نہیں بنا۔ اس لیے اسے ’عرف خاص‘ سے ’عرف عام‘ بنانے کیے لیے بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے۔ انٹرویو پینل:حضرت حافظ صاحب! ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ طبیعت کی ناسازی اور دیگر جملہ مصروفیات کے باوجود آپ نے ہمیں موقع فراہم کیا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور آپ جیسے علماء اور بڑوں کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے اور ہم اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دینی خدمات، محنتوں اور کاوشوں کا اجر دنیاوی آسانیوں اور اخروی فلاح وفوز کی صورت میں عطا فرمائے۔ آمین ٭٭٭