کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 776
ہے۔ قرآن مجید کے خشوع اور خضوع کو جتنا بڑھایا جا سکتا ہے بڑھایا جائے، لیکن خشوع اور خضوع کے ساتھ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن صوت کے ساتھ پڑھنے کو ترجیح دی ہے لیکن آواز کے اندر ایک ہوتا ہے تصنع اور ایک ہوتا ہے آواز کے اندر بے تکلفانہ حسن، چونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَمَا أنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ﴾’’میں تکلف کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔‘‘ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلف کو پسند نہیں کیا۔ قرآن مجید میں تجوید وقراءات کے اہتمام کے ساتھ ساتھ خشوع وخضوع کو ملحوظ رکھنا ازحد ضروری ہے، لیکن اس میں افراط وتفریط اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ قرآن مجید کی موسیقی کے قواعد کے مطابق ترتیل کی جانے لگی ہے اور تلاوت میں بھی موسیقی کا سا اُتار چڑھاؤ، جس میں ایکوسسٹم اور لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح آوازوں میں اتار چڑھاؤ پیدا کرنے کے لیے ہاتھوں کا بھی استعمال کیا جاتاہے۔ یہ چیز اگر تکلف کی حد تک بڑھ جائے تو مجھے خدشہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایسے لوگوں پر صادق آجائے، جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ’’ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن مجید کو تیروں کی طرح تیکھا کر کے پڑھیں گے۔‘‘اس میں غالباً آپ کی مراد یہی ہے کہ قرآن مجید میں تصنع بڑھ جائے گا اور اس کا قدرتی خشوع وخضوع متاثر ہوگا، تو جس میں تصنع بڑھ جائے ایسی صورت سے بچنا چاہیے۔ قراءات کے طلباء کو میں خصوصاً یہ تلقین کرنا چاہوں گا کہ ان کے اندر تصنع کے بجائے خشوع وخضوع زیادہ ہونا چاہیے اور یہی قرآن مجید کی فطری صورت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور عام طور پر قراءت کے طلباء جماعت بھی کرواتے ہیں تو ان کے ہاں صورتحال یہ بن گئی ہے کہ اچھی آواز والا شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ قاریوں کے اندر نخوت سب سے پہلے پیدا ہوجاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے اندر آواز ہی سب کچھ ہے، اس کے علاوہ کسی چیز کی اہمیت نہیں ہے۔ یہ نخوت قرآن مجید کے ساتھ لگا نہیں کھاتی اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((إن اللّٰہ یرفع بہذا الکتاب ویضع بہ ٰاخرین)) ’’ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ساتھ کچھ قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ کو گراتا ہے۔‘‘ ایسا نہ ہو کہ قرآن مجید کا مقصد نظر انداز کر کے ہم گر جائیں ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان تواضع اختیار کرے اور ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی دوسرے پر سرکشی نہ کرے، تو قاری حضرات کو ان چیزوں کو خصوصی طور پر ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ قاری حضرات کا یہ جو جذبہ ہوتا ہے کہ ہماری زیادہ خدمت کی جائے، یہ بہر صورت کوئی اچھا جذبہ نہیں ہے۔ آپ قرآن مجید کو اس کی خدمت کے جذبہ سے پڑھیں اور اس کے لیے پیسوں کا لالچ نہ کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں جہاں فرمایا ہے کہ ’’ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن مجید کو تیکھا کر کے پڑھیں گیـ‘‘، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’وہ دنیا کے طالب ہوں گے۔‘‘ اس لیے قرآن مجید کے طالب میں دنیا کی طلب نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہنم کی آگ جن لوگوں سے بھڑکائی جائے گی، ان میں سے ایک وہ قاری ہوگا جس نے قرآن ریا کے لیے پڑھا۔‘‘ اس لیے میں اس معاملے میں نہ افراط پسند کرتاہوں اور نہ تفریط۔ اس معاملے میں ریاسے بچنے کی جو شکل ہے وہ ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ اچھی آواز والا نماز ہی نہ کرائے یا اچھا قرآن مجید ہی نہ پڑھے، یہ بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کی۔ اس لیے اعتدال کی راہ یہ ہے کہ انسان جتنی بھی اچھی آواز سے پڑھ سکتا ہے پڑھے اور خصوصاً جب