کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 775
حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتے، اس لیے میری سوچ یہ ہے کہ ہمیں اسلام کا نمائندہ بن کر کام کرنا چاہیے۔ اگر یہ دینی مدارس کا ترجمان بنے گا تو میری خواہش ہوگی کہ تمام دینی مدارس کاترجمان بنے، بلکہ صحیح الفاظ میں میں یہ کہوں گا کہ اس کا مقصد دین اسلام کی ترجمانی ہونا چاہیے اور اسی نقطہ نظر سے ہم اسے آگے بڑھائیں ۔ باقی جہاں تک اس کی اشاعت کا تعلق ہے تو اشاعت تو حالات کے مطابق ہوتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے جامعہ کا تعارف کرانے کے لیے خود اپنے جامعہ کے متعلقین کے اندر ضررورت تھی، ہم وہاں تک بھی کام کرتے رہے، حتی کہ ایسا بھی ہوتا رہا کہ’محدث‘ جامعہ کے مختلف اداروں کی رپورٹوں کے لیے کام کرتا رہا، پھر ایک وقت آیا کہ ہم نے اسے عوام میں متعارف کرانا شروع کر دیا۔ اب اگر اس کی ترسیل عوامی ہورہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عوامی ترجمان بن رہا ہے اور عوام کو منظم کررہا ہے۔ بہرحال رشد کی قراءات نمبر کے سلسلے میں کاوش ایک اچھوتی کوشش ہے۔ اگرچہ ’قرآن نمبر‘ تو متعدد رسالوں نے ایک سو کے قریب نکالے ہیں ، لیکن قراءات کے تعارف میں کتابیں تو موجود ہیں ، لیکن اس موضوع پر مجلہ یا جریدہ شائد پہلی دفعہ منظر عام پر آرہاہے۔ رشد: رشد کی بہتری کے لیے آپ کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟ مولانا: دنیا میں ہر چیز کی انتہاء ہے، لیکن کمال کی انتہاء نہیں ہوتی۔ اس لیے کسی کام کے لیے میں یہی خوبی سمجھتا ہوں کہ اس کا ہر قدم آگے بڑھ رہا ہو۔ اس لیے میرے نزدیک ’ رشد‘ کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اس کا ہرقدم آگے بڑھ رہا ہے اور یہ برابر ترقی کرتا جا رہا ہے اور اس کا ہر شمارہ پہلے شمارے سے بہتر ہوتا ہے۔ نقش ثانی نقش اول سے بہتر ہوتا ہے، اس لیے یہ وقت کانٹ چھانٹ کا نہیں ہے، اس لیے کہ پودے جب بڑھ جاتے ہیں تو ان کی کانٹ چھانٹ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ابھی تو اس کے پھیلنے کا وقت ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جو کام بھی ہورہا ہے وہ بڑا قابل قدر ہے اور میں اپنے ساتھیوں اور عزیزوں کو اس سلسلے میں مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کی کوششیں بڑی کامیاب ہیں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو بارآور کرے۔ آمین رشد: قراءات کے طلباء کے نام اگر آپ کوئی پیغام دینا چاہیں تو! مولانا: ہمیشہ قوت اپنے اصل کے ساتھ ہوتی ہے ۔ عام طور پر سائنسی ایجادات میں بعد میں آنے والی چیز پہلے سے بہتر ہوتی ہے لیکن ہمارا دین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور نبی کریم ہی اسوہ کامل اور نمونہ ہیں ۔ اس لیے قرآن مجید کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کو اس طرف لے جائیں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن مجید پڑھا جاتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حکم یہی دیا ہے کہ ان عربی لہجوں میں پڑھو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے عربی لہجے تھے۔ مجھے افراط اور تفریط کی دونوں راہیں ذکر کر کے آپ کو بتاناہے کہ صحیح راہ کیا ہے۔ ایک تو اس میں تفریط کی راہ یہ ہے کہ اتنی زیادہ بے احتیاطی سے کام لیا جائے کہ قرآن مجید مخارج اوراس کی صفات کا لحاظ ہی نہ رکھا جائے۔ قرآن مجید میں لحن کی ایسی غلطی اہل علم کے لیے تو گوارہ نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عوام کے اعتبار سے تو اس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص تجوید کے ساتھ قرآن نہیں پڑھتا اس کا قرآن قرآن نہیں ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے اندر یہ رعایت رکھی ہے کہ جو قرآن مجید کو مشکل سے پڑھتاہے، اس کا پڑھنا اس کے لیے کافی ہے، لیکن اہل علم میں اتنی کمزوری نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تجوید کا اہتمام نہ کریں ۔ یہ تو ایک پہلو ہے، اب دوسرا پہلو قراء سے متعلقہ ہے کہ تجوید کے اہتمام کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی اصل عنایت خشوع اور خضوع