کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 774
طرح متعارف نہیں ہیں ، توہم نے سوچا کہ ان علوم کو اور ان سے متعلقہ کلیہ کوعلمی حلقوں میں متعارف کروایا جائے۔ نیز عوام کے اندر تنوع قراءات کے بارے میں جو شبہات پائے جاتے ہیں ، ان کا ازالہ بھی ہونا چاہیے اور دنیا میں قرآن کریم پر جو کام ہورہے ہیں ان کا تعارف بھی کروایا جائے، اس قسم کے اغراض ومقاصد کے پیش نظر ہم نے ارادہ کیا کہ جامعہ کے کلیہ القرآن کی طرف سے’رشد‘ کا ایک قراءات نمبر نکالا جائے۔ یہ قراءات نمبر کلِّیۃ القرآن اور مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کے تعاون سے سامنے آرہا ہے ۔ اتفاق ایسا ہے کہ عرصہ دو تین سال سے ڈاکٹر حمزہ مدنی سلمہ مجلس التحقیق الاسلامی کے ناظم اور کلِّیۃ القرآن کے مدیر کے طور پر کام کررہے ہیں ۔ انہوں نے بھرپور محنتوں اور کوششوں سے یہ پروگرام بنا یا ہے۔ ابتداء میں یہ ایک محدود پروگرام تھا جو بعد ازاں پھیل گیا۔ اب یہ نمبر تین ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آرہا ہے۔ اس قراءات نمبر میں جو چیزیں اوپر میں نے ذکر کی ہیں تمام کی تمام موجود ہیں ۔ جب علماء کرام ان علوم سے متعارف ہوں گے تو عوام کو بھی متعارف کرانا آسان ہوجائے گا، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پہلی کوشش ہے جو علماء کی حد تک کامیاب رہے گی اور عوام کی حد تک جو کوششیں زیادہ کامیاب ہوسکتی ہیں وہ محافل قراءات ہیں ۔ اصل میں کوئی بھی چیز اس وقت ہی عوامی بنتی ہے، جب اس کی اشاعت کا سلسلہ بہت زیادہ ہوجائے۔ ابھی جو ’رشد‘کی اشاعت خاص ہے، علماء کی حد تک اُمید ہے کہ کامیاب ہوجائے گی۔ علماء میں بھی مختلف میدانوں میں کام کرنے والے لوگ ہیں اور وہ اپنے اپنے میدان سے تو واقف ہوتے ہیں ، لیکن قرآن مجید سے متعلقہ علوم سے واقف نہیں ہوتے تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ قرآن مجید سے متعلقہ علوم سے بھی ان کو متعارف کرایا جائے۔ میرے لیے انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ اس خاص نمبر میں لکھنے والے تقریباً اسی فیصد مضمون نگار جامعہ کے فضلاء ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جامعہ کی ایک بہت بڑی کاوش لوگوں کے سامنے آئے گی کہ ہمارے جامعہ نے کیسے لوگ تیار کر رکھے ہیں اور وہ اپنے مقاصد سے کس حد تک واقف ہیں ۔ رشد: اس سلسلے میں طلباء کی تیاری کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ مولانا:جہاں تک طلباء کی تیاری کا تعلق ہے، تو یہ کسی رسالے کے ساتھ اس طرح نہیں ہوتی۔ ایک تو ہوتا ہے کہ طلباء کو مضامین کی تیاری کی مشق کروائی جائے ۔ یہ مقصود تو کسی رسالے سے پورا ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ طباعت صرف ان چیزوں کی ہوتی ہے جو ایک معیار پرہوں ، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ جولوگ اس میدان میں اہل قلم بن کر آگئے ہیں ، ان کی مزید بہتری اور ترقی کے لیے ’رشد‘ ممدومعاون ہے۔ ویسے کوئی مجلہ اس غرض سے شائع کرنا کہ اس سے طلباء کی تیاری ہوجائے گی ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ طباعت کے اخراجات ہی اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کو اس غرض سے برداشت ہی نہیں کیا جا سکتا۔ رشد: ’رشد‘پہلے تو ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ کا ترجمان تھا، لیکن اب ہمارا احساس ہے کہ اسے تمام مدارس اور ہر مسلک کا ترجمان بنایا جانا چاہیے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ مولانا:میری رائے یہ ہے کہ ہمیں اسلام کا نمائندہ بننا چاہیے، اس وقت اصل ضرورت اسلام کی نمائندگی کی ہے ۔ اپنے مسلک کی نمائندگی یا اپنے مسلک کی ترویج واشاعت کے لیے لوگ کام کررہے ہیں ۔ کوئی شخص آئمہ اربعہ کاتعارف کرواتا ہے یا ایک فقہ کا پابند ہوجاتا ہے تو ہم اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے، اسی طرح ہم کسی مسلک کی