کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 770
سامنے آجائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب قرآن مجید کے تمام متنوع احرف کو جمع کر دیا اور قریش کے رسم الخط کو بنیاد بنایا اور انہوں نے جو قرآن مجید لکھوائے اس کے بارے میں ابوعمرو دانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ چار نسخے تھے، جبکہ ہمارے ہاں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ وہ آٹھ نسخے تھے۔ میرے نزدیک اس کی صحیح توجیہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے آٹھ نسخے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لکھوائے توان نسخوں میں سبعۃ أحرف کے اندر الفاظ کی بھی کچھ کمی بیشی کی تھی، مثلاً بعض نسخوں میں ’واؤ‘ اور’ف‘ ہے، جبکہ بعض نسخوں میں نہیں یہ حروف نہیں ہیں ۔یہ فرق اصل میں سبعۃ أحرف میں موجود ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو چار نسخے لکھوائے تھے، ان میں تلاوت کا اختلاف تو موجو دتھا، لیکن دنیا میں جو نسخے بھیجے گئے وہ آٹھ تھے ۔ گویا ہم تنوع کو دیکھیں توچار نسخے بنتے ہیں اور ترسیل آٹھ نسخوں کی ہوئی ہے۔ یہ ایک توجیہ ہے جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بہر صورت اس کااہتمام کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جو متنوع قراء تیں پائی جاتی ہیں ان کے اندر الفاظ کی کمی موجود ہے، اگرچہ وہ ’ف‘ اور ’واؤ‘ کی ہو یا جس طرح حروف کو لمبا یا چھوٹا کرنا جسے صلہ وعدم صلہ کہتے ہیں کی قسم کی کمی بیشی ہو۔ آپ اس طرح کے اختلاف سے متوحش نہ ہوں کیونکہ خود زبر، زیر اور پیش الف، یا اور واؤ کا نصف کہلاتے ہیں ،یعنی پیش نصف واؤ، زبر نصف الف اور زیر نصف یا ہے۔ اس لیے اگر آپ زبر، زیر اور پیش کو مانتے ہیں تو کچھ لمبا کرنے سے اگر صلہ پیدا ہوجاتا ہے تو یہ لہجہ وطرز کا اختلاف ہے۔ پھریہ بھی نوٹ کریں کہ حرکات کے جس فرق سے قراء توں کے ضمن میں ہم پریشان ہوجاتے ہیں وہ ایک روایت حفص ہی کے اندر بھی موجود ہے: ﴿اللّٰہ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ﴾اور ﴿اللّٰہ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضَعْفٍ﴾ اس کامطلب یہ ہے کہ زبر اور پیش کا فرق تو آپ کو ماننا پڑے گا، تو جب آپ نے یہ مان لیا تو پھر الف اور واؤ کا فرق بھی مان لیں ۔ اس لیے یہ کہنا کہ بالکل تنوع ہے ہی نہیں ، غلط بات ہے۔ تنوع تو روایت حفص میں بھی موجود ہے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ تنوع ہے اور تنوع کے وہی فوائد ہیں جو اَئمہ کی علمی آراء کے فوائد ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ کسی مسئلے کے تمام پہلو ہمارے سامنے آجاتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کی تمام شکلیں ہمارے سامنے آجانے سے اور بلاغت کے متعدد اسالیب میں آجانے سے مخاطبین قرآن کے لیے قرآن فہمی آسان ہوجاتی ہے۔ الغرض جس طرح فقہ کا تنوع مفید ہے، اسی طرح قراء توں کا تنوع بھی بڑی مفید چیز ہے۔ آپ نے سوال کیا تھا کہ ’موسوعہ قراء ات‘ کیا چیز ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قرآن کو جمع کرنا تو سبعۃ أحرف کو جمع کرناتھا، لیکن سبعۃ أحرف کتابی صورت میں تو عثمانی رسم الخط کے اندر محفوظ ہوگئے ہیں ، جبکہ صدری صورت میں قاریوں کے ذریعہ سے منقول چلے آتے ہیں ۔ جو روایت صدری صورت میں چلی آرہی ہے، اس میں ہمارے پاس دس قراء تیں ہیں ، جن کی بیس(۲۰) روایتیں قراءات عشرہ صغری میں ہیں اور اسی(۸۰) قراءات عشرہ کبریٰ میں ۔ اس کے علاوہ بھی قراء تیں موجود ہیں ، لیکن جس طرح مشہور آئمہ کے اَقوال ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں اور بہت سے اَقوال شاذ اور نادر کہلاتے ہیں ، اسی طرح کئی قراء تیں بھی شاذ و نادر کہلاتی ہیں ،ان قراء توں کے بارے میں اہل علم کا فتویٰ یہ ہے کہ کیونکہ یہ شاذ قراء تیں ہیں اور تواتر سے ثابت نہیں ، اس لیے نماز میں ان کی تلاوت نہیں کی جائے گی، البتہ جو تواتر سے ثابت ہے ان کی نماز میں تلاوت کی جائے گی۔