کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 767
دنیا میں چار متداول روایتوں کو تو میں نے مختلف ممالک میں خود سنا ہے اور باقی روایتیں عوامی طور پر تو میں نے خود نہیں سنی ہیں ، لیکن سبعۃ أحرف کی اگر چارروایتیں دنیا میں پائی جاتی ہیں ، تو تنوع توثابت ہوگیا۔ اب جب دنیا میں تنوع پایاجاتاہے تو خواہ وہ چار کا ہی ہو تو اس تنوع کو آگے بڑھا نے میں کون سی چیز مانع ہے۔ اس لیے کہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ تنوع موجود ہے یانہیں ؟ جس طرح ہم سینہ بہ سینہ روایت حفص کو اپنا ئے ہوئے ہیں ، اسی طرح اسلامی مغربی ممالک قراءت نافع اور قراءت ابی عمرو کو اپنا ئے ہوئے ہیں ۔ تو جس طرح ہمارے ہاں ’تواتر عملی‘ کی ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، حالانکہ اگر بنظر غائر دیکھیں تو امام حفص رحمہ اللہ کی روایت قاری عاصم رحمہ اللہ سے ہے، لیکن امام عاصم رحمہ اللہ کے جو دوسرے راوی شعبہ رحمہ اللہ ہیں ، ان کی روایت ہمارے ہاں سینہ بہ سینہ موجود نہیں ہے۔ اگر آپ روایت شعبہ کا انکار کر دیں ، تو اس کامعنی یہ ہے کہ آپ قراءۃ عاصم کا انکار کر رہے ہیں ، تو قراءۃ عاصم کا انکار کرنے کے بعد روایت حفص کو کیسے باقی رکھیں گے کہ ایک ہی امام سے اگر روایت حفص ہے، تو اسی امام سے شعبہ رحمہ اللہ کی روایت بھی موجود ہے ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ خود ایک امام کے اندر یہ تنوع پایا جاتاہے۔اس کے بعد دوسرے اماموں سے جو تنوع پایا جاتاہے، اس کاانکار کیسے ہوسکتاہے؟ اگر آپ اس طرح کادعوی کریں گے تو آپ اس ’تواتر عملی‘ کاانکار کریں گے، جس کی بنیادپر روایت حفص مسلمہ صورت اختیار کرتی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ روایت شعبہ کاانکار حقیقت میں قراءۃ عاصم کاانکار ہے اور قراءۃ عاصم کا انکار ہوگیا تو روایت حفص کی بنیادہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح اگر آپ کہیں گے کہ دنیامیں روایت حفص ہی ایک روایت ہے، تو دنیامیں جو دیگر روایتیں پائی جاتی ہیں اورامام حفص رحمہ اللہ کی قراءۃ کی طرح متداول ہیں توآپ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے قرآن مجید پڑھنے کاانکار کررہے ہیں ، تو اتنے بڑے مسئلے کا آپ انکار نہ کریں ، اس لیے کہ یہ چیز تعامل امت اور اجماع علماء سے ثابت ہے، جس کو آپ ’تواتر عملی‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
رشد: منکرین قراءات کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے اور عصر حاضر میں قراءات کے حوالے سے ہمارا لائحہ عمل کیاہونا چاہیے؟
مولانا: جہاں تک قرآن مجید کا تنوع ہے اس کا انکار تو بہت خطرناک ہے ۔ اس لیے کہ سبعۃ أحرف کا انکار تو متواتر حدیث کا انکار ہے اور متواتر حدیث کا انکار بہت خطرناک بات ہے، لیکن جہاں تک موجودہ قراء توں کاتعلق ہے توان کی شکل اماموں کی روایات کی سی ہے۔ اس لیے کوئی شخص اگر کسی امام کو نہ مانے تو یہ تو ایمان کا حصہ نہیں ہے کہ وہ شخص مسلمان نہ رہے، اس بناء پر ہم ان اماموں کے نام سے قراء تیں نہ ماننے والوں کو کافر تو نہیں کہتے، اگرچہ یہ قراء تیں بھی ان آئمہ سے تواتر سے مروی ہیں اور ہمارے ہاں معروف یہی ہے کہ تواتر کا انکار کفر ہوتاہے، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ فتویٰ میں ہم سب سے کمزور شکل کو سامنے رکھ لیتے ہیں ۔ وہ فتویٰ یہ ہے کہ وہ لوگ جو مختلف تاویلوں کی صورت میں ان کاانکار کرتے ہیں تو اہل علم کا محتاط رویہ یہی ہے کہ تاویلوں سے کسی چیز کاانکار ہو تو اس پر کفر کافتویٰ نہ لگایا جائے۔ اس بناء پر میں سمجھتاہوں کہ مخصوص اماموں کی نسبت سے قراءات کا انکار تو کفر نہیں ہے، جس طرح اگر کوئی شخص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کونہ مانے یا امام مالک، شافعی ، امام بخاری یا امام جعفر صادق رحمہم اللہ کو نہ مانے تو ایمان جاتا نہیں رہتا، کیونکہ یہ امام توبعد میں دنیا میں آئے ہیں اور ان لوگوں سے پہلے بہت لوگ گزرچکے ، اس لیے میں ان اماموں کی قراءات کا انکار تو کفر نہیں سمجھتا، لیکن نفس قرآن کریم میں