کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 766
متشدد ظالموں نے انہیں جوانی کی عمر ہی میں شہید کر دیا۔ اصل میں مجھے تو جو شخصیت میسر آئی اس کو میں نے لے لیا، ورنہ میری کوشش تو تھی کہ قاری ادریس عاصم حفظہ اللہ بھی یہیں میرے پاس آجائیں ، لیکن جب وہ گئے تھے اس وقت سے ہی ان کا رابطہ لسوڑیاں والی مسجد کے ساتھ تھا، اس لیے وہ اپنے وعدے کے مطابق وہیں آکر سیٹ ہوئے۔ اس لیے عملاً قاری ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کے ساتھ مل کر ہم نے اس کام کو آگے بڑھایا، اگرچہ ہم نے کلیہ القرآن کے افتتاح کے موقع پر آغاز ہی میں ایک سپریم کونسل بنا لی تھی جس میں تمام سرپرستوں کو شامل کرلیا تھا۔ قاری یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ ، قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ ، قاری محمد عزیر حفظہ اللہ اور دیگر کئی حضرات کو ہم نے ابتداء ہی میں اس کونسل کے ارکان میں شامل کرلیا تھا، بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کلیہ القرآن کے نصاب سازی کی بعض ابتدائی میٹنگز قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ کے گھر میں بھی منعقد ہوئیں ۔ رشد: کلِّیۃ القرآن کا آغاز آپ نے کب فرمایا اور اس کے محرکات کیاتھے؟ مولانا:اس کلیہ کا آغاز آج سے تقریباً سترہ سال قبل ۱۹۹۲ء میں ہوا اور اس کاانتظام اس طرح ہوا کہ پہلے میں نے کلیہ الشریعہ کے اندر متنوع قراء توں کا اہتمام کیا، پھر مجھے اس کے لیے مستقل کلیہ کھولنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کلیہ کی ابتدا کے لیے سرپرست مجلس بھی بنائی گئی اور مجلس نے اپنی متعدد نشستوں کے اندر اس کا نصاب بنایا، تو الحمد للہ ہم نے نصاب سازی کر کے اگلے سال کلِّیۃ القرآن کی ابتدا کر دی۔ رشد:آپ کواللہ تعالیٰ نے مختلف معاملات میں بہت سے ممالک کا دورہ کرنے کاموقع دیا ہے، ان ممالک میں رائج قراءات کے بارے میں مختصر ذکر کر دیں ۔ مولانا:قراءات کا ذوق مجھ میں بہت پہلے سے تھا۔ میرے والد گرامی تجوید کے لیے زور دیتے تھے، اس لیے جب میں ’جامعہ اہلحدیث، چوک دالگرہ‘ کے اندر ناظم تھا، اس وقت بھی میں مختلف قراء حضرات سے تجوید سیکھا کرتا تھا اورتجوید کے مطابق تلاوت کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پھر بعد میں بھی میں اس سلسلے میں کوشش کرتا رہا ۔ جامعہ حقانیہ میں قاری غلام رسول صاحب کے پاس میں مستقل طور پر تجوید کی مشق کرتا رہا۔جب میں مختلف ممالک میں گیا اور مختلف قراء توں کا عملاً جائزہ لیا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کام دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، مثلاً ہم نے تراویح مراکش کے اندر پڑھی تو ہم روایت ورش میں پڑھتے رہے۔ بلکہ جب میں مراکش میں دروس حَسَنِیَّۃ کے سلسلے میں جاتا رہا ، تووہاں ایک عالم دین، مدینہ منورہ کے کلیہ قرآن سے فارغ التحصیل موجود ہیں ، انہوں نے جب ڈاکٹر حمزہ مدنی کی روایت ورش کی تلاوت سنی توکہنے لگے کہ اصل ورش کی تلاوت یہی ہے۔ جو مراکش کے اندر ورش کی تلاوت چل رہی ہے، یہ پوری ورش نہیں ہے۔ صحیح ورش کی تلاوت وہ ہے جو ڈاکٹر حمزہ مدنی کی کیسٹ میں ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت زیادہ خوشی ہوئی ۔ اسی طرح میں نے سوڈان میں دوری عن ابی عمرو بصری کی تلاوت سنی ۔ سوڈان نے بعد ازاں جن روایتوں کا طبع کرنے کا اہتمام کیا ہے ان میں امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کے دو راوی بزّی رحمہ اللہ اورقنبل رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ۔ اسی طرح سوڈان میں دیگر روایات کی تدریس کا بھی علمی سطح پر اہتمام پایا جاتاہے، لیکن میں یہاں یہ بات واضح کرنا چاہتاہوں کہ سوڈان میں روایت حفص کے علاوہ روایت دوری بھی پڑھی جاتی ہے۔