کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 765
یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ ، قاری ادریس العاصم حفظہ اللہ ، قاری عزیر حفظہ اللہ اور قاری اسلم رحمہ اللہ وغیرہ شامل رہے ہیں ۔ ہماری بھرپور کوشش رہی کہ ہم ان لوگوں سے استفادہ کرتے رہیں ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہمارایہ کام بہت عرصہ تک جزوی طور پر چلتا رہا ہے، اگرچہ کلِّیۃ القرآن کی ابتدا تو قاری محمد ابراہیم حفظہ اللہ کے یہاں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہوئی تھی۔ وہ ۱۹۹۱ء میں پاکستان تشریف لائے توہم نے یہ کام تب ہی سے کلیہ شریعہ میں شروع کروادیا تھا، جبکہ ۱۹۹۲ء میں ہم نے اس کاکلیہ الگ کر کے اس کا باقاعدہ اہتمام شروع کیا۔ اس کام میں میرے ساتھ قاری ابراہیم صاحب سے قبل جو ساتھی بھرپور تعاون کرتے رہے ہیں ، ان میں دو افراد کا میں ذکر کرتا ہوں ۔ ان میں سے ایک نام تو شیخ القراء قاری عبدالوہاب مکی رحمہ اللہ کا ہے۔ قاری صاحب ہماری خواتین کے اندر قرآن مجید کو مختلف قراء توں میں فروغ دینے کا اہتمام عرصہ دراز تک کرتے رہے۔ اللہ ان کو غریق رحمت کرے، اب وہ اللہ کے پاس جا چکے ہیں اور دوسری شخصیت قاری محمد ادریس عاصم حفظہ اللہ کی ہے، وہ ہمارے لیے الحمدللہ ابھی تک سرپرستی کا کام انجام دے رہے ہیں ۔
ہم نے کوشش یہ کی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اور ادارے کیساتھ وابستہ ہوجائے تو اس کا ہمارے ساتھ جتنا بھی تعاون ہوسکتا ہے، ہم اس کوممکن بنائیں ۔ قاری ابراہیم میرمحمدیd جب اپنی مستقل ذمہ داری بونگہ بلوچاں میں انجام دینے لگے تو ہم نے قاری صاحب کو اپنا نگران بنا دیا، لہٰذا آج قاری صاحب ہمارے جامعہ کے انتظامی معاملات میں دخیل ہیں ۔ جامعہ کے حوالے سے ہمیں کوئی بھی انتظامی یا نصابی مشکلات درپیش ہوں قاری صاحب کی باقاعدہ شمولیت ہوتی رہتی ہے اور قاری صاحب اس سلسلے میں بذات خود تشریف لاتے ہیں اور بھرپور تعاون فرماتے ہیں ۔
جب قراء توں کے سلسلے میں علمی مشکلات درپیش ہوئیں تو اس وقت بھی ذکر کردہ تمام حضرات ہمارے ممدو معاون رہے اور الحمدللہ آج ہم ان مشکلات سے نکل کر بڑی وسعت اور دلجمعی کیساتھ اس کام کوانجام دے رہے ہیں ۔
قدرت کانظام ایسا ہے کہ انسان جب بڑا ہوجاتا ہے تو پھر اس کے شاگرد اس کا کام سنبھالتے ہیں ۔ ہم لوگ بھی اب تقریباً بزرگوں میں شامل ہوچکے ہیں ۔ہمارا کام بھی ہماری اصلی اور معنوی اولادسنبھالے ہوئے ہے۔ اسی طرح قاری ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کا قائم کردہ اصل کلِّیۃ القرآن،جو لاہور میں موجود ہے، ان کی معنوی اولاد سنبھالے ہوئے ہے اور بطریقہ احسن اس کوچلا رہی ہے۔ اس وقت یہاں ان کے استاد(قاری یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ) اور ان کے شاگرد مل کر کام کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔
اس کام کے اندر ہم نے متبادل محنتیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور قاری صاحب کے جانے کے بعد کوئی خاص نمایاں کمی محسوس نہیں کی۔ اگرچہ ہم ان کے قدردان ہیں اور ہمیشہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یہ بزرگ ہمارے پاس مستقل طور پر کام کریں ، لیکن حالات کے اندر اتار چڑھاؤ رہتاہے۔ انسان کی تمام خواہشات جس طرح وہ چاہتاہے، پوری نہیں ہوتیں ، لیکن جب انسان اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھتے ہوئے دعا کرتا ہے تو اس کے لیے متبادل راستے پیدا ہوجاتے ہیں ۔
رشد: کیا وجہ تھی کہ کلِّیۃ القرآن کے آغاز کے سلسلے میں آپ کی نظر انتخاب قاری ابراہیم میرمحمدیd پر ہی پڑی۔
مولانا: میرا شروع میں رابطہ قاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ اور قاری ادریس عاصم حفظہ اللہ دونوں سے تھا، بلکہ میرا ایک رابطہ جامعہ ام القریٰ کے اندر قراء توں کاکام کرنے والے ایک پاکستانی صاحب سے بھی تھا، لیکن افسوس کہ بعد میں