کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 764
سنت کے اندر چار امام اور شیعہ کے ہاں تین مکتبہ فکر پائے جاتے ہیں ۔ اہل سنت میں سے چار اماموں نے بڑی شہرت پائی، جن میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہیں اور شیعہ کے اندر جو تین مکتبہ فکر پائے جاتے ہیں ، ان میں سے ایک امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ’اثنا عشری‘ کہلاتے ہیں ، دوسرے زین العابدین رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ’زیدی‘ کہلاتے ہیں اور تیسرے اسماعیل بن محمد باقر کی طرف اپنی نسبت کرتے ہوئے ’اسماعیلی‘ کہلاتے ہیں ۔ جس طرح پچھلے زمانوں میں مختلف اہل علم اور فقہاء زیادہ مشہور ہوگئے کہ لوگ ان کے پیچھے چلنے لگے، اسی طرح اہل علم میں سے کچھ لوگ قاری تھے، انہوں نے قرآن کو خاص انداز میں پڑھنے کا اہتمام کیا اور اس کے اندر یہی تنوع ملحوظ رکھا۔ ایک تو لغوی اختلاف کا میں ذکر کر چکا ہوں ، دوسرا یہ ہے کہ اس کے اندر لہجوں کا اختلاف ہے، یہ اختلافات ملحوظ رکھ کے انہوں نے جب اپنی قراءت وتلاوت کو منظم کیا تو یہ قراء تیں ان اماموں کی طرف منسوب ہوگئیں ۔ اب چونکہ امام بہت ہیں ، اس اعتبار سے جو ’سات اَحرف‘ تھے وہ اب ’سات‘ نہیں ر ہے،بلکہ قراء توں کی صورت میں ان کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اب وہ قراء تیں جو تواتر سے ثابت ہیں دس ہیں اور پھر اس کے بعد ہر قاری کی آگے دودو روایتیں ہونے کی بناء پر بیس روایتیں متواتر سمجھی جاتی ہیں اور یہ شکل عشریٰ صغری کہلاتی ہے اور اگر ان بیس روایتوں کے ذیلی اختلافات کو بھی ملحوظ رکھیں تو یہ اسی(۸۰) طرق بن جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہر روایت کے ذیلی چار چار طرق ہیں ، ان کو ’قراءات عشرہ کبریٰ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ دنیا میں اس وقت جو روایتیں متداول ہیں ، وہ عشرہ صغریٰ بھی ہیں اور عشرہ کبریٰ بھی اور اہل علم ان کی لوگوں کو سندیں جاری کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارے ادارے نے بھی کوشش کی ہے کہ عشرہ کبریٰ کا اہتمام کیا جائے، اگرچہ ہم قبل ازیں عشرہ صغری کے فروغ کی کوششوں میں زیادہ جدوجہد کی وجہ سے زیادہ بھرپور انداز میں اس پر کام نہیں کر سکے، لیکن ہمارے کلِّیۃ القرآن میں اس کا اہتمام پایا جاتا رہا ہے اور مزید کام آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں جس طرح عشرہ صغری کے فروغ میں پہلے قاری محمد ابراہیم میرمحمدیd نے ہمارے ساتھ تعاون کیا تھا، اب قراءات عشرہ کبری کی تدریس اور فروغ کے سلسلہ میں قاری محمد ادریس العاصمd ہمارے ساتھ تعاون بڑھا رہے ہیں اور ان کی زیر نگرانی اس سال کلیہ القرآن میں ہم قراءات عشرہ صغری کے بعد آخری دوکلاسوں میں ’ قراءات عشرہ کبری‘ کی تدریس مستقلاً شروع کر رہے ہیں ۔ قراء توں کا یہ کام جو اٹھارہ سال پہلے شروع ہواتھا یہ ابھی یہیں تک پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ہمیشہ اساتذہ کی قلت درپیش رہی ہے۔ اس لیے کہ اچھی آواز والے قاری باہر کے ملکوں میں چلے جاتے ہیں ، کیونکہ وہاں ان کی خدمت زیادہ ہوتی ہے، اس طرح ہمیں ایک مشکل یہ بھی پیش آئی کہ ہمارے اس کام میں پیش پیش ساتھی محترم قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کی جمیعۃ أحیاء التراث نے بونگہ بلوچاں کی ایک درسگاہ کے اندر تقرری کر دی اور چند سال سے قاری صاحب تدریس کے لیے وہاں تشریف لے جا چکے ہیں ،لیکن ہم نے ان کواپنے ساتھ یوں منسلک رکھا ہوا ہے کہ کلِّیۃ القرآن الکریم کی ذمہ داروں کے طور پر وہ ہمارے ساتھ ہیں ۔ اگرچہ قاری صاحب کے وہاں جانے کے بعد باقاعدہ عملی سرپرستی کی صورت میں تدریسی خدمات تو ان کے استاد قاری یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ انجام دے رہے ہیں ، لیکن قاری ابراہیم میرمحمدی d کی باقاعدہ نگرانی بھی ہمارے ساتھ شامل ہے۔ میں اس سے پہلے یہ بیان کرچکا ہوں کہ ہماری کلِّیۃ القرآن کی ایک سرپرست مجلس ہے، جس کے اندر قاری