کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 763
گذشتہ چند سالوں سے متحدہ عرب امارات کے عربی احباب کا تعاون بھیشامل ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ یوسف نجیبی حفظہ اللہ اور شیخ حسن خانصاب حفظہ اللہ ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں اور ڈاکٹر حمزہ مدنی گزشتہ سال سے وہاں بھی دوبئی کی مشہور مسجد’ صفا‘ میں متنوع قراء توں میں نماز تراویح شروع کر چکے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات کے مشائخ نے ہم سے وعدہ لیا ہے کہ ہم وہاں ہر سال متنوع قراء توں میں قرآن سنانے کا اہتمام کریں گے ۔ میں نے کلِّیۃ القرآن کی مشکلات کا ذکر کیاہے کہ یہ توسع اصل میں مشکلات کا ایک حل تھا اور میں یہ بات آپ کے سامنے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب قرآن مجید کو سات حرفوں کے اندرپڑھنے کی وسعت دی گئی تو وہ بھی اصل میں عربوں کی تلاوت میں مشکلات کا ایک حل تھا۔ جس طرح دنیا میں مختلف زبانیں ہیں اسی طرح دنیا میں ہر زبان میں کچھ لفظ بھی مختلف ہوتے ہیں اور خصوصاً لہجہ اور طرز بھی مختلف ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح عربی زبان میں لہجوں اور طرزوں کا فرق موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو کئی لہجوں اور مختلف طرزوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اتارا۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن مجید سات حروف میں مکمل ہوگیا۔ رشد: سبعۃ أحرف کا مفہوم کیا ہے؟ نیز قاری صاحب کے جانے کے بعد کلیہ قرآن کی حالیہ صورتحال کیا ہے؟ مولانا: قرآن کریم کا متعدد قراء توں میں نزول اور پھر اس کا ثبوت تو تو اتر کے ساتھ ثابت ہے، لیکن حدیث سبعۃ أحرفکی تشریح کے اندر اہل علم کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ میں اپنے انٹرویو میں یہ اختلاف زیادہ پھیلانا نہیں چاہتا۔ اس سلسلے میں صرف راجح بات ذکر کر دیتا ہوں کہ سات اَحرف سے مراد عربی زبان کی لغات کا اختلاف ہے اور اس میں عربی زبان کے طرزوں اور لہجوں کا خصوصاً احاطہ کیا گیا ہے۔ حتی کہ قراء توں میں لغوی اختلاف بھی زیادہ سنگین نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ایک لفظ کی جگہ پر ایک دوسرا متضاد لفظ رکھ دیا جائے، بلکہ وہ اختلاف بھی یہاں تک ہے کہ بعض قریبی الفاظ یاتو مخرج کے اعتبار سے قریبی ہیں یا صفت کے اعتبار سے، مثلاًسورۃ فاتحہ میں ’صراط الذین أنعمت علیہم‘ میں صراط کو ’زا‘ کے اشمام کے ساتھ بھی پڑھا جا سکتاہے اور خالص ’صاد‘ کیساتھ بھی۔ اس کے علاوہ بھی قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر صاد کی جگہ پر سین پڑھا جاتاہے ۔ کہنے کامقصدیہ ہے کہ یہ اختلاف لغت کا بڑا اختلاف نہیں ہے، لیکن چونکہ مختلف قبائل جب ان الفاظ کو بولتے تھے تو وہ سین کے ساتھ، صاد کے ساتھ اور صاد میں زاء کے اشمام کے ساتھ بولتے تھے، چنانچہ اہل عرب کی ان مشکلات کا لحاظ کرتے ہوئے قرآن کریم کو مختلف اندازوں میں نازل کردیا گیا، جنہوں قراء کی اصطلاحات میں قراءات کہا جاتا ہے۔ اس اختلاف کو ہم قرآن مجید کی لغت کااختلا ف کہہ سکتے ہیں اور یہ اختلاف صرف ظاہر کے اعتبار سے ہے، آپ اس کو تنوع ہی سمجھئے۔ یہ قرآن مجید کی وسعت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائل کے لئے اپنی اپنی زبان، اپنی اپنی طرزوں اور لہجوں کے اندر پڑھنے کی اجازت طلب کی۔ اس طرح یہ سات احرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی تلاوت میں موجودتھے۔ بعد میں انہی سات حرفوں نے قراء توں اور روایتوں کی شکل اختیار کی۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی قراء تیں انہی سات حروف سے اخذ ہوئی ہیں ، جس طرح فقہاء میں سے بعض کی فقہ مرتب ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں اہل