کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 760
دورسامنے تھا، اس نے نفاذِ شریعت کا نعرہ لگایا تھا اور کہا کہ ہم ایسی عدالتیں کھولیں گے جو شریعت کے مطابق کا م کریں گی، تو ہم نے چاہا کہ یہاں کے قانون دان طبقے کی بھی اسلامی تربیت ہونی چاہیے، پھر دونوں کا مزاج چونکہ بالکل مختلف ہوتا ہے، دینی نصاب کا مزاج الگ جبکہ قانون دان طبقے کا مزاج الگ ہوتا ہے، اس لیے ہم نے ان دونوں کاموں کو الگ الگ نصاب بنا کر کرنے کی کوشش کی۔ اُس وقت ہمارا کام ثانوی مرحلے پر مدرسہ رحمانیہ کا تھا اور جو اعلیٰ تعلیمی درجے کے لیے ہم نے سوچا تو چونکہ انسان کے سامنے Goal(مقاصد)ہوتے ہیں تو ہم نے Goal کے طور پر نام تو’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ رکھا، البتہ اس کے ذیل میں اس وقت دوچیزیں مزید شامل کیں : ایک تو کلِّیۃ الشریعۃکی ابتدا کر دی اور دوسرا ہم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو پڑھانے اور ٹریننگ دینے کا کام ’ المعہد العالی للشریعۃ والقضاء‘ کے نام سے شروع کیا۔
اس وقت جب ہم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو تربیت دینا شروع کی توہماری کوشش تھی کہ یہ لوگ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب میں بالخصوص اوردیگر ملکوں میں جاکر پڑھیں ۔ اس کام کے لیے ہم نے رابطے بھی کیے۔ اس اعتبار سے ہم نے مدرسہ کا نام جب ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ کا نام رکھا تویہ عربی انداز کو سامنے رکھتے ہوئے رکھا۔ عام طور پر پاکستان میں یہ اندازنہیں ہے۔ پاکستان میں اگر یہ نام بولا بھی جاتا ہے تو عموماً جامعہ اسلامیہ، لاہور کے نام پر بولا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں لوگ یا تو جامعہ اسلامیہ، لاہور کے نام سے پکارتے رہے یا کسی نے ہماری ثانوی تعلیم سے رحمانیہ لیا اور اُدھر سے جامعہ لیا تو ’جامعہ رحمانیہ‘ کہہ دیا۔ پاکستان میں ہمارا تعارف جامعہ اسلامیہ، لاہور یا جامعہ رحمانیہ، لاہور کے نام سے زیادہ ہوتا رہا اور عرب ممالک میں ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ کے نام سے پھیلا۔
میں نے آپ کو مختصر سا یہ بتایا ہے کہ’ مدرسہ رحمانیہ‘ سے ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ تک ہماری ارتقاء کی کیا تاریخ ہے، لیکن میں ایک بات مکمل کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے جب کاروبار کو ترقی دی تو اس وقت ہم نے سوچا کہ ہمارا کاروبار خواہ کوئی بھی ہو، ہم کام ’حفاظ گروپ‘ کے نام سے کریں گے۔ اس اعتبار سے پھر ہمارا تعارف ’حفاظ گروپ‘ کے نام سے ہونے لگا۔ اس طرح ہمارا کاروباری تعارف’ حفاظ گروپ‘ کا ہے اور ہمارا دینی کام’ رحمانیہ‘ کے نا م سے آگے بڑھتا چلا آرہا ہے، لیکن میں نے آپ کو بتایا کہ ابھی تک ہمارا کام ’رحمانیہ ‘کے نام سے ہی پاکستان وہندوستان میں متعارف ہے۔ لوگ ’جامعہ لاہور اسلامیہ‘ کے بجائے ’جامعہ رحمانیہ‘ کہہ دیتے ہیں ۔ ہم بھی جب ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ لکھتے ہیں تو اس کے ساتھ بریکٹ میں ’رحمانیہ‘ کا لفظ لکھ دیتے ہیں ، تا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ’ جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ سے کونسا ادارہ مراد ہے۔
رشد : کلِّیۃ القرآن الکریم کے ابتدائی دور کی مشکلات اور ارتقاء کے بارے میں کچھ بتائیے؟
مولانا: قرآن مجید کی متنوع قراء تیں قرآن مجید کا توسع ہیں اور توسع ہی کا ذکر ہم کررہے تھے کہ کلِّیۃ القرآن کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ہمارا توسع سعودی عرب سے رابطہ کی صورت میں ہوا، چونکہ کلِّیۃ القرآن کے ذمہ داروں میں قاری محمد ابراہیم میر محمد حفظہ اللہ کا ذکر ہوا ہے، قاری صاحب اس سے پہلے مدینہ منورہ میں کلِّیۃ القرآن، مدینہ یونیورسٹی اور سعودی عرب کے إذاعۃ القرآن الکریم کے باہمی تعاون کی صورت میں متنوع قراءات پر کام کررہے تھے۔ اس طرح سے کلِّیۃ القرآن کے سلسلے میں ہمارا پہلا رابطہ انہی سے ہوا۔ جبکہ ہمارا