کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 757
مجید کو سمجھا، اس لیے اللہ نے جب انہیں حج کی سعادت بخشی تو حج میں انہوں نے ملتزم پر جو دعاکی وہ یہ تھی کہ ’’اے اللہ! میری اولاد کو قرآن کا حافظ اور محافظ بنا دے۔‘‘ حج سے واپس آکر انہوں نے اپنی اولاد کے لیے یہ کوشش شروع کر دی کہ پہلے ان کو قرآن حفظ کروایا جائے اور پھر بعد میں قرآن مجید کی تعلیمات سے آشنا ہوں ۔ ان کا یہ شوق اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی میں اس طرح پورا کیا کہ پھر ان کی اولاد کے اندر حفظ کا سلسلہ چل پڑا۔ تقریباً ایک صدی سے صورتحال یہ ہے کہ ہمارے خاندان کے اندر قرآن مجید کے حفظ سے تعلیم کی ابتدا ہوتی ہے ۔ ہر لڑکا اور لڑکی پہلے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں اور اس کے بعد پھر وہ کوئی بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ میاں روشن دین رحمہ اللہ نے اپنے اکثر لڑکوں کو قرآن مجید حفظ کروایا۔ کمال تو اللہ رب العالمین کی ذات کو ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی نیک خواہشات کو جب پورا کرتے ہیں تو ان کو کامیابی دیتے ہیں ۔ میاں روشن دین رحمہ اللہ کی اولاد میں سے پانچ لڑکے حافظ قرآن تھے۔ ان سے سب سے بڑے رکن دین رحمہ اللہ ہیں ، اس کے بعد حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ ہیں ، اس کے بعد حافظ محمد حسین رحمہ اللہ ہیں (جو میرے والدتھے)، اس کے بعد حافظ عبدالرحمن کمیر پوری رحمہ اللہ ہیں ۔ ہمارے ایک تایا عبدالقادر رحمہ اللہ بھی تھے، چونکہ وہ بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے، اس لیے مجھے ان کا پتہ نہیں کہ وہ قرآن کے حافظ بن سکے یا نہیں ۔ واضح رہے کہ حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ سے بڑے ہمارے تایا رکن دین رحمہ اللہ کے ایک بیٹے کا نام بھی عبدالقادر ہے، جو بعد میں ’مناظراسلام‘ کے لقب سے معروف ہوئے اور حافظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ کے نام سے شہرت حاصل کی۔ ابھی چند سال قبل ہی فوت ہوئے ہیں ۔ اس طرح سے میرے ایک تایا کا نام بھی عبدالقادر ہے اور تایا زاد بھائی کا نام بھی عبد القادر ہے۔ ہم اپنی اُٹھان کمیر پور سے رکھتے ہیں ۔ کمیر پور آج کل ضلع امر تسر کا ایک حصہ ہے، جبکہ اس وقت یہ تحصیل ’اجنالہ‘ کا حصہ تھا۔ کمیر پورمیں ہماری درسگاہ چھوٹی تھی، جس نے روپڑ میں جاکر وسیع شکل اختیار کر لی اور یہیں سے ہماری دعوت اور پیغام پورے ہندوستان میں پھیلا۔ اسی اعتبار سے ہم لوگ’روپڑی‘ کہلائے۔ روپڑ میں دینی مشن کے سلسلہ میں چونکہ زیادہ کام ہمارے تایاحافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے کیا تھا، اس حوالے سے محدث روپڑی رحمہ اللہ کو روپڑی خاندان کا سربراہ کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے روپڑ میں درس گاہ بھی چلائی اور ’تنظیم اہل حدیث‘ کے نام سے رسالہ بھی نکالا اور اسی طرح ان کی بے شمار تصانیف بھی موجود ہیں ، جو روپڑ میں شائع ہوتی رہیں ۔ اسی طرح وہ روپڑ میں عوام کے لیے بڑے بڑے جلسے اور کانفرنسیں بھی کیا کرتے تھے، جن میں ہندوستان بھر کے علماء شریک ہوتے۔ یہ سلسلہ یوں چلتا رہا۔ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ پاکستان آنے سے پہلے اپنے آپ کو امر تسری کہلاتے تھے، کیونکہ روپڑ میں تو وہ اس وقت تک خود موجود تھے، لیکن جب ہم لوگ روپڑ سے پاکستان آگئے، توہمیں ’روپڑی‘ کہا جانے لگا۔ روپڑ پاکستان بننے سے پہلے ایک تحصیل تھی، لیکن اب یہ ہندوستان کا ایک ضلع ہے۔ میں آپ کو یہ تعارف کروا رہا تھا کہ ہمارے دادا روشن دین کی دعاؤں اور کوششوں سے ہمارے خاندان میں رواج پڑ گیا کہ ہمارا ہر بچہ اور بچی حفظ سے ابتدا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام کافی کامیاب دکھایا۔ چند سال پہلے روزنامہ جنگ سے کچھ اخبار نویس آئے تو انہوں نے ہمارے خاندان کو اکٹھا کر کے ہم تمام کا انٹرویو کیا تھا اور پھر حفاظ