کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 7
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قراءت سیکھی ہی نہیں بلکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سنایا بھی تھا۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے طبقات القراء میں سات صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا ہے جو استاذ القراءت تھے، یعنی عثمان غنی، علی ابن ابی طالب، ابی بن کعب، زید بن ثابت، عبداللہ بن مسعود، ابوالدردااور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم ۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کی بڑی تعداد نے علم قراءت حاصل کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عہد تابعین میں ہی قراءت کے اندر اختصاص کا رجحان پیداہوگیا تھا۔ یعنی یہ وہ دور تھا کہ جب قراءت کو ایک مستقل علم یا فن کی حیثیت سے روشناس کرایاگیا۔ اس دور کے فوراً بعد ہی علماء کی ایک کثیر تعداد فن قراءت کے اَئمہ رحمہم اللہ اور اَساطین کی صورت میں سامنے آئی۔ مکہ، مدینہ، بصرہ، دمشق،کوفہ و بغداد میں فن قراءت خوب پھیلا۔ اس دور کے جن ائمہ قراءت کو شہرت دوام ملی ان میں نافع بن نعیم، عبداللہ ابن کثیر، عبداللہ بن عامر، ابوعمرو بن العلاء، ابوبکر عاصم، علی بن حمزہ الکسائی رحمہم اللہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔ قراءت سبعہ کے راویوں میں امام نافع رحمہ اللہ کے دو شاگردوں قالون اور ورش کی روایتوں کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ابن کثیر رحمہ اللہ کی قراءت کی روایت کرنے والوں میں قنبل اور بزی زیادہ مشہور ہوئے۔ ابوعمرو بصری رحمہ اللہ کے شاگردوں میں ابوعمر اورحفص بن عمر ہیں جن کے نام سے روایت حفص آج بھی مقبول ہے۔ ان ائمہ کے بکثرت تلامذہ عالم اسلام میں پھیل گئے اور علم قراءت کو شہرت و مقبولیت کے بام عروج پر پہنچا دیا۔فن قراءت کے بغیر اسلامی کلچر ناقابل تصور تھا۔ اسلامی دنیا کے اَساتذہ قراءت نے فن قراءت کے اصول و ضوابط مقرر کئے، قراءت کی تدوین و تہذیب کی، صحیح، مشہور اور شاذ قراءت کے اُصول و اَرکان مقرر کئے،بڑی محنت سے روایات قراءت کو جمع کیا اور انہیں کتابی شکل دی۔ محمد سعود عالم قاسمی کی تحقیق کے مطابق سب سے پہلے فن قراءت پر جس عالم نے کتاب لکھی وہ امام کسائی رحمہ اللہ (م۱۸۹ھ) ہیں اور ان کے بعد عبید بن قاسم بن سلام رحمہ اللہ(م۲۲۴ھ) ہیں ۔ محقق ابن جزری رحمہ اللہ نے ابن سلام رحمہ اللہ کو پہلا معتبر مصنف قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی معروف کتاب النشر فی القراءت العشر میں اپنے پیشروؤں کی ۵۷ کتابوں کا تعارف کرایا ہے۔ سعود عالم قاسمی نے ’فن قراءت کا ارتقاء‘میں تیسری صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک فن قراءت اور علماء قراءت پر لکھی جانے والی کتابوں کی اجمالی فہرست پیش کی ہے۔ یہ ’اجمالی‘ فہرست بھی سینکڑوں قابل قدر کتب پرمشتمل ہے۔ درجنوں کتب کا نام ’کتاب القراء ت‘ دیا گیا ہے۔ علم قراءت پر بیشتر کتابیں نثر میں ہیں جب کہ بعض کتابیں منظوم ہیں ۔ منظوم کتابوں میں مشہور ترین ’قصیدہ شاطبیہ‘ ہے۔ علم قراءت کو آگے بڑھانے میں جن اَساطین نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں ، ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان کی خدمات کا مختصر جائزہ پیش کرنے کے لئے بھی ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ میرے پیش نظر جو مواد اس وقت ہے، اس کی روشنی میں صرف تین شخصیات کے مختصر تعارف پر اکتفا کروں گا۔ امام ابوعمرو دانی رحمہ اللہ کو مسلم اندلس میں علم قراءت میں جو شہرت ملی، وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہ آئی۔ ’دانیہ‘ اندلس کا ایک مشہور شہر علم قراءت و تجوید کا اہم مرکز تھا۔ یہ اس شہر کی نسبت سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے فن قراءت میں بہت سی کتابیں تصنیف کیں جن میں التیسیر فی القراءت السبع اور طبقات القراء بے حد معروف ہیں ، انہوں نے ۴۴۴ھ میں دانیہ میں انتقال فرمایا۔ دوسرے قصیدہ شاطبیہ کے مصنف امام شاطبی رحمہ اللہ ہیں ۔