کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 670
قاری حبیب الرحمن ٭
وقف و اِبتداء
ترتیل
اللہ جل شانہ‘ کاارشاد گرامی ہے : ﴿وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا﴾ [المزمّل:۴] ’’قرآن کوصاف اورکھول کھول کر پڑھ‘ ترتیل کا حکم اس آیت مبارکہ میں بیان کیاگیاہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق ترتیل کے دو جزء ہیں :’’الترتیل ھو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف‘‘
’’یعنی ترتیل کا جزء اوّل تجوید الحروف ہے اور جزء ثانی معرفۃ الوقوف ہے۔‘‘
گویا جس آیت مبارکہ سے تجوید کا ثبوت ملتاہے اسی سے وقف کا بھی ثبوت ملتاہے۔ علم تجوید سے قرآن مجید کی صحت معلوم ہوتی ہے تو علم وقف سے اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔اسی وجہ سے ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ کا قول ہے :
’’من لم یعرف الوقف لم یعرف القرآن‘‘
’’جسے وقف کی پہچان نہیں اُسے قرآن کی پہچان نہیں ۔‘‘
علم تجوید و قراءات کے ساتھ وقف کااتنا گہرا تعلق ہے جیسے چولی دامن کا ساتھ۔ علم وقف کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء کاقول ہے کہ جب تک قاری کو وقف و ابتداء کی معرفت حاصل نہ ہوجائے اُسے سند نہ دی جائے، کیونکہ قاری کے لیے یہ بات انتہائی معیوب ہے کہ ترتیل کے جزء پرتو عمل کرے اور دوسرے سے غفلت برتے۔
مگر مقام افسوس یہ ہے کہ مجودین و قراء کی تجوید و قراءات کی جانب توجہ ہوتی ہے اور وقف کے معاملہ میں تغافل و تساہل برتا جاتاہے۔ بعض مجودین و قراء کی تجوید و قراءت میں پختگی اور اَدائیگی کے حسن کی وجہ سے ان کی تلاوت میں لطف آرہا ہوتاہے کہ یکایک نامناسب یا غلط وقف و ابتداء کی وجہ سے سارا مزہ جاتا رہتا ہے۔
اَفضلیت قراء ت
قراء ت، وقف سے افضل ہے، کیونکہ ہر حرف پرنیکیاں ملتی ہیں جتنی دیر وقف میں لگے گی اتنی دیر میں کئی نیکیاں کمائی جاسکتی ہیں ۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قراءت میں اصل وصل ہے حتیٰ کہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی ایک سانس میں مکمل قرآن مجید پڑھ سکے تو پڑھ لے مگر ایساچونکہ محال ہے اور وقف کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے اور یہ ضرورت کبھی تو استراحت کی وجہ سے ہوتی ہے تاکہ قراءت سکون سے اَداہوسکے اور کبھی یہ ضرورت اِضطراری ہوتی ہے جیسے کھانسی، چھینک وغیرہ اور کبھی یہ ضرورت کسی مسئلہ تجوید یا وجہ قراءت کو سمجھنے کی خاطر ہوتی ہے اور کبھی یہ ضرورت جمع الجمع پڑھتے ہوئے اختلاف ِقراءت کو پورا کرنے کی وجہ سے پیش آتی ہے۔
[1] مدیر ماہنامہ القاری،لاہور