کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 666
وکلّ مَن بدّل منہ حرفاً بائَ بکُفر أو علیہ أشفا(۹۲) لیکن جس طرح دیگر فقہی وشرعی ابحاث میں بین الائمۃ والسلف اختلاف موجود رہا ہے ،اسی طرح التزامِ رسم کو بھی انہی مسائل ِحقہ پر قیاس کرتے ہوئے اِ س کے منکر کو کافر قرار دینا مناسب نہیں ،کیونکہ فروعی معاملات میں تنقید وتحقیق کی حدود میں رہتے ہوئے اختلافِ رائے کا حق بہر حال موجود ہے۔ڈاکٹر لبیب السعید رحمہ اللہ اِس پر اپنی رائے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’....أن بعض العلماء یذہب الی تکفیر المخالفین فی الرسم الاصطلاحی المصحف، نقرر أننا نخالف ذلک الرأی،ونری أن الأمر لا یستدعی ہذ ا التکفیر، طالما أن العلماء اختلفوا فی ہذہ المسألۃ منذ قدیم، وقد سار علی ہذا القضاء العربی الحدیث أیضًا‘‘۔(۹۳) ’’ بعض علماء نے رسمِ اصطلاحی کے مخالفین پر تکفیر کا حکم لگایا ہے لیکن ہم اس رائے کے حق میں نہیں اور ہمارا خیال ہے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں جس میں کسی پر فتوئکفر لگایا جائے،کیونکہ قدیم علماء کے مابین بھی یہ اختلاف موجود رہا ہے اور اسی طرح اب دورِ حاضر کے ماہرین بھی اس میں اختلافِ رائے کا اظہار کر سکتے ہیں ۔‘‘ اگرچہ رسمِ عثمانی کے منکر پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی قطعًا اجازت نہیں دی جاسکتی کہ کوئی اِس رسم پر تنقید و تشنیع کاایسا طریقہ اختیار کرے جس سے رسمِ مذکور کے تقدس کے علاوہ صحابہ کی معیارِ حق شخصیات پر حرف آئے۔ حوالہ جات ۱۔ قاضی عبدالفتاح رحمہ اللہ نے الشیخ حسین والی رحمہ اللہ اور احمد حسن زیات رحمہ اللہ کو بھی اسی نظریہ کے قائلین میں شمار کیا ہے....ملاحظہ ہو: القاضی، عبدالفتاح، تاریخ المصحف الشریف:ص۸۲ ۲۔ لطائف الاشارات لفنون القراءات:۱/۲۷۹ ۳۔ إتحاف فضلاء البشر:ص۹ ۴۔ البرہان فی علوم القرآن: ۱/۳۷۹ ۵۔ مناہل العرفان: ۱/۳۷۸ ۶۔ مباحث فی علوم القرآن:ص۲۸۰ ۷۔ الجمع الصوتی الاول: ص۲۹۲ ۸۔ قرآن وسنت چند مباحث(۱):ص۲۰۱ ۹۔ غانم: رسم المصحف: ص۲۰۱ ۱۰۔ مرجع سابق ۱۱۔ مناہل العرفان ۱۲۔ رسم المصحف: ۲۰۱ ۱۳۔ لطائف الاشارات لفنون القراءات: ۱/۲۸۵