کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 646
ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حروف کے خط اور حسن تصویر کو پہچانتے تھے۔ ٭ بخاری کی بعض روایات میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے چار دن پہلے ’ اور یہ جمعرات کا دن تھا ‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا :((ایتونی بکتف أکتب لکم کتابا لا تضلوا من بعدي )) ’’میرے پاس شانہ لاؤ میں تمہیں کچھ لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہوسکو۔‘‘ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ﴿ وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ﴾[العنکبوت:۴۸] کا انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے پہلے کی نازل کردہ ہے اور اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کارفرما ہے کہ پہلے آپ اُمی تھے پھر ایسے عظیم الشان علوم لے کر آئے جن کا ایک اُمی سے صدور محال ہے۔آپ کا اُمی ہونے کے باوجود ایسے علوم لانا بھی کمال معجزہ کی دلیل ہے۔ جمہور علماء کا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لغوی معنی میں اُمی تھے، یعنی نہ لکھ سکتے تھے اور نہ ہی لکھا ہوا پڑھ سکتے تھے۔ انہوں نے قرآنی آیت ﴿ وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتٰبٍ﴾[العنکبوت:۴۸]اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم (( نحن أمۃ أمیۃ لا نکتب ولا نحسب )) ہم اُمی امت ہیں نہ لکھ سکتے اور نہ گن سکتے ہیں ، سے استدلا ل کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کتابت و قراءت کو جاننا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمی ہونے کے معجزہ کو باطل کردیتا ہے کہ وہ نبی اُمی ہوں گے اور معجزات میں ایک معجزے کا دوسرے معجزہ کو ختم کردینا محال ہے اور حدیث میں (( فکتب )) کے الفاظ سے مراد((أمربالکتب)) ہے کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا۔ الابی اور السنوسی رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے حق بات کہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں لکھا، لیکن اگر کوئی شخص اس کا قائل ہے تو اس سے کفر یا فسق لازم نہیں آتا بلکہ یہ ایک غلطی ہے۔ المواھب میں منقول ہے کہ صحیح ترین بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے نہیں لکھا،کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ضرور تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچتا۔ بعض نے فریقین کے دلائل میں تطبیق دے کر حیران کن کام کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں امی تھے اور آخر حیات میں کتابت و قراءۃ کو جانتے تھے۔ واللّٰہ أعلم رسم عثمانی کے بارے میں بعض مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ یہ صحابہ کرام کی طرف سے اصلاح کی گئی تھی جس کی مخالفت کرنا جائز ہے۔ اسی طرح شیخ الاسلام عزبن عبدالسلام رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ پہلی رسم پر آج مصحف کی کتابت جائز نہیں ہے۔ بعض متاخرین نے ذکر کیا ہے کہ رسم عثمانی کی اتباع فقط پہلے زمانے میں ضروری تھی اب نہیں ہے۔ مذکورہ تمام اقوال و آثار ناقابل توجہ اور ناقابل قبول ہیں ، کیونکہ اس سے رسم کو بالتدریج ترک کرنا لازم آتا ہے اور ایک ایسی چیز جس کو سلف ثابت کرچکے ہیں جاہلوں کی جہالت کی رعایت کرتے ہوئے اس کو چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ وہ قراءت کے بنیادی ارکان میں سے ہو۔ علاوہ ازیں اس سے قراءت قرآنیہ اور علوم الاداء کے ضیاع کا خطرہ ہے۔ ٭٭٭