کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 631
٭ جن ملکوں میں علامۃ الصلۃ استعمال ہوتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں :اکثر عرب ملکوں میں تو الخلیل رحمہ اللہ والی علامت( ص یا ص) استعمال ہوتی ہے، اندلس اور مغرب میں مدت تک اس کے لیے عموماً سبز رنگ کے گول نقطہ کا رواج رہا۔ بعض افریقی ممالک میں علامۃ الصلۃ کے طورپر سبز نقطے کا رواج اب بھی موجود ہے۔ نائیجیریا کے بعض رنگدار مصاحف میں اس کی بہترین مثالیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔ آج کل عام طور پر افریقی ممالک میں علامۃ الصلۃکے طور پر الف الوصل کے اوپر عموماً ایک باریک سیاہ نقطہ ڈالاجاتاہے۔ ٭ افریقی ممالک میں الف الوصل کے ماقبل کی حرکت کے لیے بھی ایک نشان اس(الف) پر ڈالا جاتا ہے۔ اس نشان کو ’صلۃالوصل ‘ یا ’خبش الف الوصل‘بھی کہتے ہیں ۔ یہ عموماً ماقبل کی فتحہ کے لیے الف کے اوپر دائیں طرف ایک ہلکی سی اُفقی لکیر ہوتی ہے، جوکسرہ کے لیے الف کے نیچے اور ضمہ کے لیے الف کے وسط میں لگائی جاتی ہے، مثلاً ’’ ‘‘ ٭ اگر ہمزۃ الوصل سے ابتداء ہورہی ہو، مثلاً اس سے قبل مثل وقف لازم قوی وقف ہو، تو اس صورت میں اس کی ممکن حرکت کے لیے عرب ممالک میں کوئی علامت نہیں ڈالی جاتی، بلکہ قاری غالباً اپنی عربی دانی کے زور پر خود ہی نطق کے لیے حرکت متعین کرلیتا ہے۔ صرف سوڈانی اور لیبی مصاحف میں اس کے لیے بھی خاص علامات مقرر کی گئی ہیں ، اگرچہ دونوں ملکوں کی علامات میں معمولی تفاوت ہے تاہم فتحہ کے لیے یہ علامت(جو گول باریک نقطہ یا باریک سا دائرہ ہوتاہے) الف کے اوپر، کسرہ کے لیے ٹھیک نیچے اور ضمہ کے لیے الف کے آگے(بائیں طرف) وسط میں لکھی جاتی ہے، جیسے ’’ ا‘‘، ’ ’ ا‘‘ ،’ ’ ا‘‘ ٭ اہل مشرق نے الف الوصل کی علامت صلہ کا استعمال ہی ترک کردیاہے۔ اگر الف الوصل والا لفظ ماقبل سے ملایا جارہا ہو تو الف الوصل پر کسی قسم کی علامت نہیں ڈالی جاتی اور اگر اس سے ابتداء ہورہی ہو تو اس الف پر علامت قطع(ء ) ڈالے بغیر منطوق حرکت دے دی جاتی ہے۔ علامت قطع نہ ہونے سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ہمزۃ الوصل ہے اور حرکت سے اس کے صحیح تلفظ کی طرف بھی اشارہ ہوجاتا ہے،مثلاً عرب ممالک میں ’اللّٰہ الصمد‘ لکھتے ہیں ،مگر برصغیر میں ’اللّٰہ الصمد‘ لکھتے ہیں ۔ پہلے طریقے پر قاری کو اللہ کے الف کی حرکت کاکچھ پتہ نہیں چلتا، دوسرے طریقے میں یہ چیز الف کی فتحہ نے واضح کردی ہے۔ مشرق کا کوئی عام ناظرہ خواں کسی عرب ملک کے مصحف سے سورۃ الاخلاص تک درست نہیں پڑھ سکتا، البتہ اہل مشرق میں عموماً ہمزۃ القطع بھی بغیر علامت قطع(ء) کے لکھنے کا رواج ہوگیا ہے، مثلاً’بأس‘ کو ’باس‘ لکھ دیتے ہیں جو علمی لحاظ سے غلط ہے یاپھر علامت ہمزہ کی ایجاد سے پہلے کی یادگار ہے۔ ٭ ہمزۃ الوصل اور حرف زائد کے لیے علامت کے استعمال یاعدم استعمال سے اہل مشرق اوراہل مغرب کے طریقۂ کتابت یعنی ضبط میں بڑا فرق پڑتا ہے اور اس فرق کی وجہ سے ایک علاقے کے آدمی کو دوسرے علاقے کے مصحف میں سے تلاوت کرنے میں سخت صعوبت پیش آتی ہے۔ مثال کے طور پر لفظ ’أولوالعزم‘ کو لیجئے ،اس کو ضبط کرتے وقت اہل مشرق تو دونوں او اور ’لو‘ کے بعد آنے والے دونوں الف بھی ہر قسم کی علامت سے خالی رکھتے ہیں ، مگر عرب اور افریقی ممالک میں ’أولو‘کی پہلی واو پر ’علامت حرف زائد‘ اور ’لو‘ کے بعد آنے والے دو الفوں میں سے پہلے پر ’علامت زیادہ‘ اور دوسرے پر ’علامت صلہ‘ ڈالیں گے۔ اس طرح اس لفظ کو پہلی صورت میں ’اولوالعزم‘اور دوسری صورت میں ’أولوالعزم‘ لکھیں گے۔ اسی طرح اہل مشرق ’اوتوا الکتب‘ مگر عرب