کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 630
ساتھ ایک ہی بنتا ہے، یعنی’أفَئِن‘ جو لین کی طرح ہے اور اگرلئن پر قیاس کریں ،جو متفق علیہ ضبط ہے، تو پھر ’ی‘ کی بجائے الف کو زائد ماننے والوں کاموقف زیادہ قرین صواب ہے۔ واللہ اعلم ۳۷۔علم الضبط کے مسائل میں سے ایک مسئلہ نقص فی الھجاء والے کلمات کا ضبط بھی ہے، یعنی ایسے حروف جو لکھے نہیں جاتے مگر پڑھے ضرور جانے چاہئیں ، مثلاً الرَّحْمٰن اور العٰلَمِیْنَ کا الف ، دَاوٗد اورتَلْوٗنَ کی دوسری واو اور أمِّیِّن اور نَبِیّنَ کی دوسری یاء یہ محذوف حرف عموماً الف ’و‘ ی ہی ہوتا ہے اور وہ بھی ’مدہ‘اگرچہ ایک دو جگہ ’ن‘ بھی محذوف ہوا ہے۔ [تفصیل کے لیے دیکھئے: غانم ص۵۹۷ ببعد، الطرازورق ۷۱/الف ببعد] دورِ طباعت سے پہلے قلمی مصاحف میں ان محذوفات کا ’اثبات‘ باریک قلم اور سرخ سیاہی سے کیا جاتا تھا، یعنی سرخی سے حسب موقع ’ا‘ یا’و‘ یا ’ے‘‘یا’ن‘‘لکھ دیتے تھے۔ دور طباعت میں یہ حروف متن کی سیاہی کے ساتھ مگر باریک قلم سے لکھے جانے لگے ہیں ، مگر اس میں بھی اہل مشرق حرف محذوف کااِضافہ کرنے کی بجائے الف مدہ محذوفہ کے لیے(ٰ)، واو مدہ محذوفہ کے لیے( ۔ٗ ) اور یائے مدہ محذوفہ کے لیے( ۔ٖ ) کی علامت استعمال کرتے ہیں ، البتہ ’ن‘ کو وہ بھی باریک قلم سے ہی لکھتے ہیں ،مثلاً ’ ‘ حرف محذوف ’الف‘ ، ’و‘ یا ’ی‘‘عرب ممالک کے طریقے کے مطابق تو الرَّحمٰن، صلحٰت، داوود، تلوون، أمِّیِّــــن اورنَبِیِّــن لکھیں گے، مگر برصغیر کے ضبط کے مطابق یہی کلمات علی الترتیب یوں لکھے جائیں گے: الرحمٰن،صٰلحٰت،داوٗد،تلوٗن، أمیٖـن اور نبیٖن۔ نوٹ کیجئے کہ تمام کلمات کااصل عثمانی رسم، ضبط کی دونوں صورتوں میں برقرار رہا ہے۔ صرف علاماتِ ضبط کا فرق ہے۔ [حروف محذوفہ کی نوعیت اور مزید مختلف مثالوں سے آگاہی کے لیے دیکھئے: کتاب حق التلاوۃ ص۱۴۹ تا۱۵۳] ۳۸۔ علامات ضبط کاایک اور اہم مسئلہ ہمزۃ الوصل کا ضبط ہے۔اس کے لیے الف الوصل کے اوپر ایک مخصوص علامت ڈالی جاتی ہے جسے ’صلہ‘ یا ’علامۃ الصلۃ‘ کہتے ہیں ۔ الخلیل رحمہ اللہ سے پہلے یہ علامت عموماً ایک ہلکی سرخ لکیر(جرہ لطیفہ) ہوتی تھی۔ [نمونے کے لئے دیکھئے: المحکم(مقدمہ محقق) ص۳۹)] بعد میں بعض علاقوں میں اس کے لیے گول سبز نقطہ لگایا جانے لگا اور بعض علاقوں میں سرخ نقطہ ہی لگا دیتے تھے۔ [دیکھئے یہی کتاب: المحکم، ص۸۷ جہاں مؤلف نے ایسے دو مصاحف کا خصوصاً ذکر کیاہے۔] ٭ الخلیل رحمہ اللہ نے اس کے لیے ’’ ‘‘ کی علامت وضع کی، جو حرف صاد(ص) کے سرے سے ماخوذ ہے اور جو ہمیشہ الف الوصل کے اوپر ہی لکھی جاتی تھی اور بیشتر عرب ممالک میں اب بھی لکھی جاتی ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے ہی ہمزۃ الوصل کی علامت مطلقاً ترک کردینے کا رجحان پیدا ہوگیا تھا۔ [غانم ص ۵۹۳، جہاں ترتیب زمانی کے ساتھ بعض نمونوں کا ذکرموجود ہے۔] شاید اس لیے بھی کہعلامۃ الصلۃ لکھنے سے ضبط کے کئی نئے مسائل بھی پیداہوجاتے ہیں ،جیساکہ ابھی بیان ہوگا۔ بیشتر مشرقی ممالک مثلاً برصغیر، چین ، ایران(اور ترکی میں بھی) ہمزۃ الوصل کے لیے کسی علامت ضبط کااستعمال کافی عرصے سے متروک ہوچکا ہے۔ [ترکی کے حافظ عثمان کے مکتوبہ مصحف میں علامۃ الصلۃ موجود ہے، مگر مصطفی نظیف اور حامد ایتاج نے اسے استعمال نہیں کیا ہے۔]اور ممکن ہے برصغیر میں تو اس کا استعمال شاید متعارف ہی کبھی نہ ہوا ہو۔