کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 629
کیاجائے تو پھر اسے ’اللہ‘لکھنا پڑے گا،جو ان کے ضبط کے مطابق لکھے ہوئے ’اللّٰتَ‘ سے مشابہ ہی ہوجائے گا۔ا س لیے ان تمام ملکوں میں یہ لفظ جلالہ غلط علامت ضبط کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور اس کا درست پڑھنا صرف شفوی تعلیم پر منحصر ہے۔ ٭ صرف برصغیر میں لام جلالت کی اس مد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے ’اللہ‘ لکھا جاتاہے یاپھر چین میں اسے ’اللہ‘ لکھا جاتاہے۔ تلفظ کے تقاضوں کے مطابق اس معاملے میں عرب اور افریقی ممالک یا ایران اور ترکی سب کا طریق ضبط ناقص ہے۔ برصغیر کی تازہ ترین ایجاد اس معاملے میں یہ ہے کہ اب تجویدی قرآن(مطبوعہ پاکستان) میں لام جلالت کی تفخیم یا ترقیق کے لیے دو الگ الگ علامات ضبط اختیار کی گئی ہیں ۔ لفظ جلالت کے تمام تجویدی تقاضوں کے مطابق یہ اس کے لیے بہترین ضبط ہے۔ ۳۶۔ علم الضبط کے مسائل میں ’زیادۃ فی الہجاء‘ یا حروف زوائد کا مسئلہ بھی اہم ہے، یعنی وہ حروف جو رسم عثمانی کے مطابق لکھے جاتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے، مثلاً مائۃ،جائ اور لشایٔ وغیرہ کا الف،: أولئک،أُولی یاأُولو وغیرہ کی واو اور نبایِٔ یا تلقایِٔ وغیرہ کی ’یا‘ واو الجماعۃ کے بعد لکھا جانے والا الف، جسے الف الاطلاق کہتے ہیں ۔ [ابن درستویہ ص۱۰۵(حاشیہ ۴۶)]اور ضمیر واحد متکلم(أنا) کے آخر پر آنے والا الف وغیرہ۔ [حروف زوائد کی تفصیل کے لیے دیکھئے: حق التلاوۃ ص۱۵۴ ببعد]عرب اور افریقی ممالک میں اس قسم کے زائد الف ’و‘ یا ’ی‘ پر ایک علامت زیادہ یا’عدم نطق‘ ڈالی جاتی ہے، جو عموماً ایک بیضوی شکل کا دائرہ((()ہوتا ہے۔ ہجاء کے ان زوائد پر یہ علامت ڈالنے کا رواج بہت پرانا ہے۔ ’نقط المصاحف‘ کے طریقے میں بعض دفعہ اس مقصد کے لیے صر ف سرخ نقطہ بھی استعمال ہوتا تھا۔ الخلیل رحمہ اللہ نے اس کے لیے کوئی الگ علامت وضع نہیں کی تھی۔ اس لیے بعد میں بھی یہی سرخ گول دائرہ(دائرۃ حمراء) اس مقصد کے لیے مستعمل رہا۔ [المقنعص۱۴۰ ببعد نیز الطرازورق ۹۴/ب ببعد]بلاد عرب اور افریقی ممالک کے اندر رائج طریقے پر مصحف میں حروف زوائد(محتاج دائرہ) کی تعداد سینکڑوں تک جاپہنچتی ہے، خصوصاً الف الاطلاق کو بھی شامل کرلینے کی بناء پر۔ ٭ اہل مشرق نے اس کے برعکس یہ طریقہ اختیار کیا کہ جو حرف زائد نطق میں نہیں آتا، اسے ہر قسم کی علامت ضبط سے معری رکھا۔ اس طرح حرف الف کی چند معدود صورتیں ایسی رہ جاتی ہیں کہ ان میں التباس واقع ہوسکتا ہے، مثلاً الف ما قبل مفتوح جبکہ اس کے بعد کوئی حرف ساکن یا مشدد بھی نہ آرہا ہو۔ یہ کوئی بیس کے قریب مقامات بنتے ہیں لہٰذا صرف ان پر علامت زیادہ(دائرہ یاعلامت تنسیخx) لگا دیتے ہیں ۔ اس طریقے پر نہ أولئک کی واو پر نشان لگانے کی ضرورت ہے، نہ تلقایِٔ کی ’ی‘ پر اور صرف الف الاطلاق پر ہی یہ علامت نہ ڈالنے کے باعث مجموعی طور پر شاید کاتب کے کئی دن نہیں تو کئی گھنٹے یقیناً بچ جاتے ہیں ۔ بعض لفظوں کے بارے میں یہ اختلاف بھی ہوتا ہے کہ اس میں زائدالف ہے یا ’ی‘ ،مثلاً ’أفائن‘ اور ’ملائہ‘ میں [المحکم ص۱۹۴۔ الطرازورق ۱۰۵/الف]اس لیے ان کی علامت زیادۃ کے موقع ضبط کی تعیین میں بھی اختلاف موجود ہے۔ اس فرق کو اچھی طرح اور عملاً سمجھنے کے لیے کلمہ ’أفائن‘یا’أفائن‘(آل عمران:۱۴۴ اور الانبیاء ۳۴) کاضبط کسی مصری یاسعودی مصحف میں اور پھر برصغیر کے کسی مصحف میں دیکھئے۔ آپ دیکھیں گے تلفظ دونوں ضبط کے