کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 628
قسم کے کلمات میں حرف مد پر حرف زائد کی علامت لکھتے ہیں ، مثلاً أولئک،مثلاً مصری اور سعودی مصحف جہاں زائد کی علامت ’ ‘ کی بجائے ’ ‘ ڈالی گئی ہے۔ بعض جگہ حرف کے نیچے باریک قلم سے لفظ ’’قصر‘‘(أولئک) لکھ دیتے ہیں اور بعض جگہ حرف کے نیچے لفظ ’بلااشباع‘ لکھتے ہیں ،جبکہ ایران، مصر اور ترکی سے مطبوعہ ایسے مصاحف بھی ملتے ہیں ، جن میں اس التباس کے دور کرنے کے لیے کوئی علامت وغیرہ نہیں دی گئی۔ ٭ دوسرے یہ کہ جب حرف مد کے بعد حرف ساکن آرہا ہو جس میں حرف ممدود کو آگے ملایاجاتا ہے تو اس صورت میں برصغیر میں حرف مد پرعلامت سکون نہیں ڈالتے، جس سے قاری کو پتہ چل جاتا ہے کہ مدبلکہ حرف مد کا تلفظ ہی ختم ہوگیا، لیکن عرب ممالک کے ضبط کے مطابق قاری پہلے تو بادی النظر میں ایسے حرف مد کو بصورت مد پڑھے گا، پھر اسے پتہ چلے گا کہ اسے تو آگے ملانا ہے، مثلاً لفظ ’اُوْتُوا‘ برصغیر سے باہر ’اُوتُوْا‘ لکھا جاتا ہے، اس کے بعد مثلاً ’الْعِلْم‘ لکھا جائے تو یہ ہمارے ہاں ’اُوْتُوا‘ لکھا جائے گا، مگر دوسرے ملکوں میں یہ ’أُوتُوْا الْعِلْم‘ لکھا جاتاہے۔ یہاں ’تُوا‘ کو ’ل‘میں ملانے کا پتہ قاری کو’تُو‘ یعنی ’تُو‘ پڑھ چکنے کے بعد چلتا ہے، مگر برصغیر کا قاری ’ت‘ اور ’ل‘ کے درمیانی حروف کو علامت سے خالی دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ ان کا تلفظ ہی نہیں ہوگا۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب ھُوَ اور ھِیَ میں ’و‘ یا ’ی‘ پرعلامت حرکت لگ سکتی ہے، تو ھُو یاھِی میں علامت سکون کیوں نہ لگے؟ ۳۴۔ مد کے ہی مسائل میں محذوف(مگر ملفوظ) حرف مد کے ضبط کا مسئلہ آتا ہے۔عموماً تو یہ محذوف ’الف‘ ہوتاہے، مثلاً ’رحمن‘‘میں ’م‘ اور ’ن‘ کے درمیان الف محذوف ہے اور قرآن کریم میں اس کی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں ۔ کبھی کبھار یہ محذوف ’و‘‘یا ’ی‘بھی ہوتی ہے ،مثلاً ’داوٗد‘ میں ایک ’و‘اور ’أُمِّیِین‘ میں ایک ’ی‘‘محذوف ہے۔ قلمی دور میں یہ محذوف(ا،و،ی) سرخی سے باریک قلم کے ساتھ لکھ دی جاتی تھی اور اسے ماقبل کی حرکت کے مطابق پڑھ لیا جاتاتھا۔ دور طباعت میں عرب اورافریقی ممالک میں یہ محذوف(ا،و، ی) باریک قلم کے ساتھ متن کی ہی سیاہی سے لکھ دیئے جاتے ہیں اور ماقبل کی حرکت فتحہ، ضمہ یاکسرہ بھی لکھتے ہیں ، مثلاً الرَّحمٰن ، داوٗد اور ’أُمِّین‘ لکھیں گے، مگر برصغیر میں ’ ‘ کی جگہ ’ ‘ ،’ ‘ کی جگہ ’ ‘ اور ’ ‘ کی جگہ ’ ‘لکھا جاتا ہے اور اس طرح یہ لفظ الرحمٰن، داوٗد اور ’أُمِّیــن‘ لکھے جاتے ہیں ۔ عرب ممالک کے مصاحف میں سے صرف مصحف الحلبی میں ان مشرقی علامات کو اختیار کیا گیا ہے۔ [مصحف الحلبی ص۵۲۳، ص ۵۲۵، بیان علامات (التعریف] ترکی اور ایران میں کھڑی زبر ’ ٰ ‘اور کھڑی زیر’ ٖ‘ کا استعمال کہیں کہیں ملتا ہے، مگر ضمہ معکوس یا الٹی پیش ’ ‘ کااستعمال ان ملکوں میں مفقود ہے۔ ۳۵۔اور اسی قسم کی مد(بحذف حرف مد) کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ اسم جلالت کی لام کے اشباع(مد اصلی) کا طریقہ کتابت ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ تمام عرب اور افریقی ممالک بلکہ ترکی اورایران میں بھی اسم جلالہ یوں لکھا جاتاہے: ’اللَّہ‘ حالانکہ تلفظ میں یہ لفظ’الّٰہ‘ہیں ، بلکہ ’الاَّہ‘ ہے، بلکہ لام کے اشباع(مد) کے علاوہ اس لام کی تفخیم اور ترقیق علم تجوید کا ایک اہم قاعدہ ہے۔ [حق التلاوۃ ص۶۸ والکلاک ص۶۹ و ص ۱۰۴] ٭ حقیقت یہ ہے کہ عرب اور افریقی ممالک میں الف مدہ محذوفہ میں ماقبل کی فتحہ لکھے بغیر مد کا تصور ہی نہیں ہے، اس لیے وہ اسم جلالت کے لام پر شد اور فتحہ ڈالتے ہیں ۔ اب اگر اس کے ساتھ مد کی خاطر الف محذوفہ کا اثبات بھی