کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 627
میں یہ چھوٹی ’م‘ پوری تنوین اخفاء کے ساتھ لکھی گئی ہے۔( ) یہ طریقہ مصری مصحف سے ہی ماخوذ ہے، مگر ذرا ترمیم کے ساتھ جو کاتب مصحف کے لیے مشکل پیدا کرنے والی ہے، مگر قاری کے لیے نہایت مفید ہے۔ ٭ تنوین کے نون ملفوظی اورمابعد کے مشدد یاساکن حرف کے اتصال کی علامت کے طورپرمشرقی ممالک، خصوصاً ترکی، ایران، برصغیر اور چین میں حرف منون کے بعد یا تنوین کے نیچے ایک چھوٹا سا ’ن‘لکھتے ہیں جو اکثر مکسور ہی ہوتا ہیں۔ ہمارے ہاں برصغیر میں اس نون کو ’نون قطنی‘ بھی کہتے ہیں ۔ تجویدی قرآن میں یہ نون تنوین کی دوسری حرکت کے بدل کے طور پر ایک سرے پرلکھا گیا ہے۔( ) یہ عجیب بات ہے کہ عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اس مقصد کے لیے کوئی علامت استعمال نہیں کی جاتی، حالانکہ اُصول تجوید میں اس نون اتصال یانون قطنی کے طریق اداء سے بحث کی جاتی ہے۔ [حق التلاوۃ ص۶۹، الکلاک ص۷۰]شاید اہل زبان خود بخود ایسے موقع پر نون اتصال کا تلفظ پیدا کرلیتے ہوں ، مگر اہل مشرق کے لیے اس علامت کے بغیر اسے صحیح پڑھنا ناممکن ہے۔ ۳۳۔ حرکات طویلہ: یعنی الف ما قبل مفتوح یا’و‘ ما قبل مضموم یا ’ی‘ ما قبل مکسور، جسے دوسرے لفظوں میں مدطبیعی یا مد اصلی بھی کہتے ہیں ۔ رسم عثمانی میں ان حرکات کے متعدد اور متنوع مظاہر پائے جاتے ہیں اور ان کے خلاف قیاس اور متباین کتابت نے علم الضبط کے لیے بھی کئی مسائل پیدا کردیئے ہیں ۔ مد کی صورت میں یہ حروف مدہ یعنی ا، و،ی ہمیشہ ساکن ہی ہوتے ہیں اور اس وقت یہ حرف صامت کانہیں ، بلکہ حرف صائت کاکام دیتے ہیں ۔ ان حروف کے بعد ہمزہ یا حرف ساکن کے آنے سے مد کی زیادہ کھینچے جانے والی صورتیں یعنی مد فرعی اور اس کی اقسام پیدا ہوتی ہیں ۔ اس صورت میں مقدار مد کی بنا پر حرف مد کے اوپر علامت مد ’ ٓ ‘ لکھی جاتی ہے۔ یہ علامت بھی الخلیل رحمہ اللہ کی ایجاد ہے۔ افریقی ملکوں میں اور بعض دفعہ خط بہار کے مصاحف میں یہ علامت اس صورت میں لکھی جاتی ہے:( ) یا( ) ٭ کتب تجوید میں مد کے طول اور قصر کی بنا پراس کی کئی اقسام مذکور ہوتی ہیں ، تاہم عموماً تمام ملکوں میں ہرقسم کی مد کے لیے علامت ایک ہی استعمال ہوتی ہے۔ غالباً صرف برصغیر میں ہی مد متصل( ٓ) اور مد منفصل( ٓ) کی دو علامتیں مستعمل ہیں ۔ بعض ایرانی نسخوں میں بھی مد کی یہ دو علامتیں یعنی چھوٹی مد( ٓ)اور بڑی مد( ٓ)دیکھی گئی ہیں ۔ ٭ الف تو ہمیشہ ما قبل مفتوح ہوتا ہے اور ممدود ہوتا ہے مگر ’و‘ اور ’ی‘ اگر ماقبل مفتوح ہوں تو اسے ’لین‘ کہتے ہیں اور اس میں صرف خاص شرائط کے ساتھ مد پیدا ہوتی ہے، جسے کتب تجوید میں مدُّ اللین کہتے ہیں ، لیکن اس کے لیے کوئی علامت ضبط مقرر نہیں ہے۔ ’و‘ اور’ی‘ لینہ ہوں تو ان پرعلامت سکون ڈالنے کا رواج ہر جگہ ہے۔ مگر ’و‘ یا ’ی‘ مدہ پر علامت سکون ڈالنے کا رواج نہ افریقی ملکوں میں ہے، نہ بلاد عرب میں ، بلکہ ترکی، ایران اور چین تک یہی طریقہ رائج ہے، البتہ صرف برصغیر میں واو مدہ اور یائے مدہ پربھی علامت سکون ڈالتے ہیں ، مثلاً یُورِثُ اور مِیزَانٌ کو یُوْرِثُ اور مِیْزَانٌ لکھیں گے۔ ٭ نحوی نقطہ نظر سے ، اور الف ماقبل مفتوح پرقیاس کرتے ہوئے شاید برصغیر کا یہ تعامل درست نہ سمجھا جائے، لیکن غالباً صوتیاتی اصولوں کے مطابق نہ زیادہ بہتر ہے، مثلاً اوّل تو عرب ممالک کے رائج طریقہ میں اُولئک، اُولُوالعزم اور اُولی الامر وغیرہ الفاظ میں پڑھنے والے کو التباس پیدا ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ملکوں یا علاقوں میں حرف مد( و یا ی) پر علامت سکون ڈالنے کا رواج نہیں ہے، وہاں قاری کو غلطی سے بچانے کے لیے مذکورہ