کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 626
اِدغام مع الغنہ ہے۔ ان مصاحف میں قاری کے لیے اس غنہ کی پہچان کی کوئی علامت نہیں ہے۔
٭ البتہ لیبی اورتونسی مصاحف بروایۃ قالون میں ’و‘ اور’ ی‘کی صورت اِدغام میں نون ساکنہ پر علامت سکون اور ’و‘ یا ’ی‘ پرتشدید بھی ڈالی گئی ہے یعنی ’مَنْ یَّقُوْلُ‘ اور ’مِنْ وَّالٍ‘ لکھا گیا ہے۔ یہی طریقہ صاحب الطرازنے الدانی رحمہ اللہ اور ابوداؤد رحمہ اللہ کا ’اختیار‘ قرار دیا ہے اور ٹھیک یہی طریقہ تمام پاکستانی مصاحف میں استعمال ہوتاہے اور اس لحاظ سے مصری اور سعودی مصاحف کا ضبط ناقص ہے۔ پاکستان کے ’تجویدی مصحف‘ میں ادغام مع الغنہ سے قاری کو بروقت متنبہ کرنے کے لیے نون پر مخصوص علامت سکون( ) ڈالی گئی ہے اور یہ اس مصحف کی مزید خوبی ہے۔ [دیکھئے اوپر حاشیہ ۸۹]
٭ ساکن نون کے قبل از ’ب‘ ہونے کی وجہ سے اس کے اقلاب بمیم کی صورت میں ’ن‘ پر علامت سکون کی بجائے چھوٹی سی میم(م) لکھی جاتی ہے، مثلاً مصری سعودی اور افریقی مصاحف میں [دیکھئے ان کے ضمیمہ ہائے تعریفی]اور بعض اس ’م‘ کے اوپر علامت سکون ڈالتے ہیں ،مثلاً پاکستانی تجویدی قرآن مجید میں [دیکھئے اس کامقدمہ ص۲۰] یعنی پہلی صورت میں ’من بعدہ‘ لکھیں گے اور دوسری صورت میں یہ لفظ یوں لکھا جائے گا: ’’من بعدہ‘‘
۳۱۔ تشدید(شد):یہ دراصل ہم مخرج یا ہم جنس حروف کے سکون اور حرکت کا اِمتزاج ہے، جو کبھی ایک کلمہ میں واقع ہوتا ہے اور کبھی دو کلمات میں ۔ ابوالاسود رحمہ اللہ نے خود تو نہیں مگر ان کے متبعین نے اس کے لیے ’ ‘ کی شکل تجویزکی تھی جو دال مقلوبہ سے ماخوذ تھی۔ [المحکم ص۴۹ ببعد،نیز الطرازورق ۲۶/الف ببعد]پہلے اس کے لیے قوس کی شکل بھی( یا یا ) اختیار کی گئی تھی۔ الخلیل رحمہ اللہ نے اس کے لیے موجودہ علامت( ) ایجاد کی، جو تشدید یاشدہ کے ’ش‘ سے ماخوذ ہے۔ اشکال کے معمولی فرق ، مثلاً یا کے ساتھ یہ نظام اب تک دنیائے اسلام کے مشرق و مغرب میں ہرجگہ مستعمل ہے، البتہ حرف مشدد مکسور کی حرکت کے موقع میں کہیں کہیں اختلاف ہے۔ [غانم ص۵۹۰ ببعد ۱۰۱، المقنع ص ۱۲۷، المحکم ص۶۸]
۳۲۔ تنوین: یہ دراصل حرف متحرک اور نون ساکنہ کا امتزاج ہے، جوکسی کلمہ کے آخر پرواقع ہوتا ہے۔ اس میں نون ملفوظی شکل میں موجود مگر مکتوبی شکل میں غائب ہوتا ہے۔الدانی رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق ابوالاسود رحمہ اللہ نے اس کے لیے دو نقطے تجویز کئے تھے، جو تنوین رفع کے لیے حرف کے سامنے(پیچھے)، تنوین نصب کے لیے حرف کے اوپراور تنوین جر کے لیے حرف کے نیچے لگائے جاتے تھے۔ کسی حرف حلقی سے ماقبل یہ نقطے متراکب(:) اور حروف اخفاء سے پہلے متتابع(..) ہوتے تھے۔
٭ الخلیل رحمہ اللہ کے ایجاد کردہ طریقے میں اسے دو دو حرکات سے ظاہر کیا جانے لگا اور اب تک کیا جاتا ہے۔
٭ تنوین کے نون کے اِقلاب بمیم کو ظاہر کرنے کے لیے برصغیر اور چین کے مصاحف میں پوری تنوین لکھنے کے بعد اگلی ’ب‘ پر چھوٹی سی ’م‘لکھنے کا رواج رہا ہے، مثلاً أمداً بعیداً۔ ترکی اور ایران کے بیشترمصاحف میں یہ چھوٹی ’م‘لکھنے کا مطلقاً رواج نہیں ہے۔ معلوم نہیں وہ اس ’ن‘ کی آواز کوکس طرح ’م‘ میں بدلتے ہیں ۔ بظاہر یہ نہایت ناقص ضبط ہے اور قاری کو صحیح تلفظ میں کوئی مدد نہیں دیتا ۔ عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں بصورتِ تنوین اس اقلاب کو ظاہر کرنے کے لیے تنوین کی صرف ایک حرکت لکھ کر ساتھ چھوٹی سی ’م‘ لکھ دی جاتی ہے۔( )تجویدی قرآن