کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 625
میں یہ دلچسپ بحث کہ ’لا‘ میں کون سا سرا الف اور کون سا لام ہے۔ا س بحث نے بھی اہل مشرق اور اہل مغرب کے طریق ضبط میں ایک زبردست تنوع پیدا کردیاہے اور علم الضبط میں کسی حرف کو ہر قسم کی علامات ضبط سے خالی رکھنے(تعریۃ) کے بھی مختلف قواعد ہیں ، وغیرہ ذالک۔ ۲۸۔ اس طرح اگر تفصیل میں جائیں تو یہی پانچ بنیادی علاماتِ ضبط پھیل کر چالیس سے زائد علامات کی شکل اختیار کرجاتی ہیں ۔ علامات ضبط کا تفصیلی بیان ۲۹۔ حرکا ت قصیرہ: یعنی فتحہ، کسرہ اور ضمہ....شروع میں ابوالاسود رحمہ اللہ کے طریقہ پر رنگدار اورنقطوں سے ظاہر کی جاتی تھیں ۔ اس کے بعد الخلیل رحمہ اللہ کی ایجاد کردہ حرکات(۔َ ۔ِ ۔ُ)استعمال ہونے لگیں اور یہی اب تک رائج ہیں ۔ ۳۰۔ سکون:ابوالاسود رحمہ اللہ نے خود تو حرف ساکن کے لیے کوئی علامت وضع نہیں کی تھی، البتہ نقطِ مصاحف میں ان کے متبعین نے علامت سکون کے طور پر حرف ساکن کے اوپر ہلکی سی سرخ اُفقی لکیر(جرَّۃ حمراء) تجویز کی تھی۔ اہل مدینہ اس کے لیے سرخ گول دائرہ استعمال کرتے تھے۔ [المقنع ص ۱۲۹، المحکم(مقدمہ ۹ ص۳۸ ] الخلیل رحمہ اللہ نے اس کے لئے ’د‘ اور ’ہ‘تجویز کیا، جس میں جزم کے ’ج‘ یا’م‘ کی طرف اشارہ ہے۔ [الطرازورق ۲۴/ب، غانم ص۸۸ ببعد]اور یہی دو علامتیں آج کل استعمال ہوتی ہیں ۔ افریقی ممالک میں زیادہ تر ’ہ‘ کااور مشرقی ملکوں میں ’ ‘ یا’د‘ کا رواج ہے۔بعض ’ھ‘ کو خاص نون ساکنہ مظہرہ کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ’ہ‘ کو عام علامت سکون کے طور پر یا نون مخفاۃ اور میم مخفاۃ کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ [مصحف الحلبی: ص۵۲۴] ٭ مشرقی ممالک میں سے چین میں عام علامت سکون’ہ‘ ہی استعمال ہوتی ہے، اگرچہ وہاں اس کے لیے کبھی کبھار دوسری علامت ’ ‘ بھی استعمال کرلیتے ہیں اور بظاہر دونوں علامات بغیر کسی ’رمز تمیز‘ ہونے کے مستعمل ہیں ۔ یہی صورت بعض ایرانی مطبوعہ مصاحف کے اندر دیکھنے میں آئی ہے۔ ٭ بعض اہل علم نقاط نے مختلف مقاصد کے لیے مختلف علامت ہائے سکون وضع کی ہیں ، مثلاً نون یا میم ساکنہ مظہرہ کے لیے: ’د‘ اور نون یا میم مخفاۃ کے لیے:’ ‘نون ساکنہ کے ادغام ناقص کے لیے:’ ‘ اور قلقہ کے لیے:’ ‘۔ [تجویدی قرآن(مقدمہ) ص۱۵ و ص۱۹] ٭ عرب اور افریقی ممالک میں اِدغام تام کی صورت میں نون ساکنہ کو علامتِ سکون سے خالی رکھا جاتاہے اور حرف مدغم فیہ پرعلامت تشدید ڈالتے ہیں اور اِدغام ناقص یااِخفاء کی صورت میں نون کوعموماً علامت سکون سے اور اگلے حرف کوتشدیدسے خالی رکھا جاتاہے یعنی اخفاء اور ادغام ناقص کے مابین کوئی علامت تمیز مقرر نہیں ہے۔ [الطرازورق ۱۹/ب و ۲۰/الف] یہ طریقہ نہ صرف علامہ التنیسی کی تصریح کے خلاف ہے، بلکہ اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ اس میں ’ادغام مع الغنہ‘ کی کوئی رعایت نہیں کی گئی، یعنی حرف مدغم فیہ کے ’و‘یا ’ی‘ ہونے کی صورت میں یاکوئی دوسرا حرف ہونے میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا، مثلاً ان مصاحف(مصری، سعودی اور سوڈانی) میں ’من تحتھا،من ثمرۃ ‘کی طرح ’مَن یَقُوْلُ‘اور ’مِن وَالٍ‘ لکھا گیا ہے، حالانکہ آخری دو مثالوں میں ی اور و کا