کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 624
اور ضبط کی بہت سی علامات اور رموز متن کی سیاہی کی بجائے مختلف رنگوں میں لکھی جاتی تھیں ۔[ملاحظہ ہو الطرازورق ۱۲۶/ب ببعد] دور طباعت میں رنگوں کا یہ تنوع برقرار رکھنا دشوار تھا۔اس لیے طباعت کے تقاضوں کے مطابق بعض علامات رسم و ضبط کو تبدیل کرنا پڑا۔ ان جدیدقواعد کے لیے ضبط مصاحف پر کچھ نئی تالیفات بھی وجود میں آئیں ۔ ان میں سے علامہ علی الضباع کی’سمیر الطالبین‘ الشیخ احمدأبو ذیتحار کی’السبیل الی ضبط کلمات التنزیل‘ اور ڈاکٹر محمد سالم محیسن کی ’إرشاد الطالبین إلی ضبط الکتاب المبین‘ قابل ذکر ہیں ۔
علامات ضبط کا اجمالی بیان
۲۷۔ اس فن کی کتابوں کے مطالعہ سے اور مختلف ملکوں اور زمانوں کے قلمی اور مطبوعہ مصاحف کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابت مصاحف میں حروف کی نطقی کیفیت کو متعین کرنے کے لیے بنیادی مواقع ضبط پانچ ہیں ، یعنی حرکت، سکون، شد، مد اور تنوین، مگر علم تجوید وقراءت کے تقاضوں کے پیش نظر ان بنیادی پانچ مواقع میں سے ہر ایک کے متعلق کچھ مزید نطقی کیفیات کو ضبط کرنے کی ضرورت درپیش آتی ہے،مثلاً(۱)حرکت سے حرکات ثلاثہ قصیرہ( ۔َ ۔ِ ۔ُ ) اور ان کی بعض خاص نطقی کیفیات، مثلاً اشمام، روم، اختلاس، امالہ یابعض خاص حروف کی ترقیق یاتفخیم کے مسائل پیداہوتے ہیں ۔ (۲) سکون کی صورت میں بعض خاص صوتی اثرات ظاہر ہوتے ہیں ،مثلاً نون یا میم ساکنہ کااخفاء و اظہار، یا حروف ’قطب جد‘میں قلقلہ کی کیفیت وغیرہ۔(۳)اسی طرح تشدید ہم مخرج یا قریب المخرج حروف میں سکون اور حرکت کے اجتماع سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی یہ متحرک حرف کے بعد آتی ہے اور کبھی ساکن حرف کے بعد ۔(۴) تنوین کی اپنی مخصوص علامات ہیں ۔ مزید برآں تنوین کا ملفوظی نون ساکنہ ہو یا عام مکتوبی نون ساکنہ، ان کے بعض دوسرے حروف کے ساتھ امتزاج اور اجتماع سے چند مخصوص صوتی اور نطقی مسائل پیدا ہوتے ہیں ، مثلاً اخفاء، اظہار، اقلاب، ادغام، نون تنوین کا مابعد کے حرف ساکن سے اتصال کاطریقہ وغیرہ۔ (۵) حرکات طویلہ یعنی مد کی مختلف صورتوں میں حروف مدہ کے طریق ضبط کے علاوہ ہائے کنایہ اور لام جلالت کا طریق اشباع بھی شامل ہے۔
٭ ان کے علاوہ رسم عثمانی کی بعض خصوصیات بھی مخصوص قسم کی علامات کی متقاضی ہوتی ہیں ،مثلاً اصل مصاحف عثمانی میں ہمزہ متوسطہ متطرفہ کانہ لکھا جانا یا ایسے حروف لکھے جانا جوپڑھے نہیں جاتے،(زیادۃ فی الھجاء) یا ایسے حروف نہ لکھے جانا جو پڑھنے میں آتے ہیں ( یعنی نقص فی الھجاء) وغیرہ۔ اس قسم کے امور بھی مخصوص رموز ضبط کی ایجاد کے متقاضی ہوئے۔ کتابت ہمزہ عربی زبان کی عام املاء میں بھی باعث صعوبت بنتی ہے۔ [دیکھئے عبود : ص۱۰ ببعد]لیکن مصاحف میں اس کے اپنے مخصوص رسم بلکہ ’عدم رسم‘ سے پیدا ہونے والے مختلف قراءت کے اپنے اپنے اَحکام ہمزہ مثلاً تحقیق، تسھیل یا بین بین وغیرہ نے اسے مزید پیچیدہ فن بنا دیا ہے۔ المحکم اور الطراز میں سب سے طویل بیان کتابت ہمزہ اور اس کے قواعد کا ہے۔ [نیز دیکھئے عبود:ص۴۰۔۳۹]اور یہ تو ہمزۃ القطع کا قصہ ہے۔ ہمزۃ الوصل یا الف الوصل کو ہمزۃ القطع سے ممتاز کرنے کے لیے مخصوص علامت(صلہ) کی ایجاد اور ہمزۃ الوصل میں وصل و ابتداء کی علامت کا تعین بھی اس فن(ضبط) کاایک خاص موضوع ہے۔ اسی طرح کتابت ہمزہ ہی کے ضمن