کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 622
ہجری تک کے لکھے ہوئے بعض ایسے مصاحف نظر آتے ہیں ، جن میں علامات ضبط بعض دفعہ دونوں طریقوں سے ملی جلی بھی استعمال کی گئی ہیں اور بعض علماء ضبط سے اس کی اجازت بھی ثابت ہے۔ [ غانم ص۵۲۲ ]
۲۲۔ ابھی یہ بتایا جاچکا ہے کہ نقاط کے ذریعے شکل المصاحف کا طریقہ طویل استعمال اور قریباً تین صدیوں کی اِصلاحات کی وجہ سے قراءت اور تجوید کی اکثر و بیشتر ضروریات کے لیے زیادہ موزوں اور مکمل ومکتفی ’نظام ضبط‘ بن چکا تھا، بلکہ اس دور ان قراءت سبعہ کی تدوین بھی عمل میں آگئی اور نقط و شکل کایہ طریقہ مختلف روایات، مثلاً حفص، قالون، ورش اور الدوری وغیرہ کی مختص نطقی اور صوتی کیفیات کی رعایت کے لیے بھی موزوں کرلیاگیا۔ [ماہرین فن توفن کی مخصوص کتابوں کے ذریعے تمام ہی قراءات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں ہم نے صرف چار روایات کاذکراس لیے کیا ہے کہ زیادہ تر یہی مختلف علاقوں میں رائج ہوگئی تھیں اور ان علاقوں میں عوام کے لیے تیار کردہ مصاحف میں حسب روایت ہی ضبط کا خیال رکھنا پڑتا تھا اور قراءات کا یہ انتشار اور رواج اب تک جاری ہے، مثلاً اس وقت حفص کی روایت تمام ایشیائی ممالک اور مصر میں ، قالون کی روایت لیبیا اور تیونس میں ، ورش کی روایت مراکش، نائیجیریا اور غانا میں اور الدوری کی روایت یمن اور سوڈان میں رائج ہے او ران روایات و قراءات کے مطابق مصاحف مطبوعہ دستیاب ہیں ۔]اس لیے الخلیل رحمہ اللہ کے طریقے کے متبعین نے بھی اس قسم کی تمام ضروریات کے لیے نقط المصاحفکے اس طریقہ کے اُصول اور قواعد کو ہی اپنا رہنما بنایا، مثلاً پرانے طریقے کے مطابق ’اظہار‘ کے لیے تنوین رفع و نصب کی صورت میں حرف منون کے اوپر اور تنوین جر کے لیے حرف کے نیچے۔ دو متراکب(اوپر نیچے) نقطے(:) لگائے جاتے تھے اور ’اخفاء ‘ کے لیے اسی طرح حرف کے اوپر یا نیچے دو متتابع(آگے پیچھے) نقطے(۰۰) لگائے جاتے تھے۔ [المقنع: ص۱۲۷] نقط بالحرکات کی صورت میں اظہار کے لیے کتابت تنوین مکر ر حرکات کی یہ شکل اختیار کی گئی:(۔ً ۔ٍ ۔ٌ ) اسے اصطلاح میں ’ترکیب‘ کہتے ہیں اور اخفاء کے لیے اس سے مختلف صورت لے لی گئی:(۔ً ۔ٍ ۔ٌ) اور اسے اصطلاح میں ’اتباع‘ کہتے ہیں ۔ [الطرازورق ۱۲/ب۔نیز دیکھئے: المحکم ص۷۲ جہاں اسے نقط علی الطول‘ اور ’نقط علی العرض‘ کہا گیاہے۔]اسی طرح ادغام، اقلاب، امالہ وغیرہ کے لیے نقط کے پرانے طریقے کو ضرورت کے مطابق ڈھال لیا گیا،مثلاً پہلے نون ساکنہ یا قبل با(ب) کے اقلاب بمیم کے لیے ’ن‘ کوعلامت سکون سے اور ’ب‘ کو علامت تشدید سے معری رکھتے تھے یا ’ن‘ پر سرخ سیاہی سے چھوٹی سی میم(م) بنادیتے تھے۔ نقط بالحرکات میں اسی دوسرے طریقے کو اپنا لیا گیا۔ [المحکمص۷۶-۷۵ اور الطرازورق ۱۷/ب]
علم الضبط کی تدوین
۲۱۔ علم الضبط ایک عملی فن تھا اور مصاحف کے کاتب اورناقط عموماً اس کی عملی تطبیقات سے واقف ہوتے تھے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ کاتب(خوشنویس)حضرات میں سے کم ہی اہل علم ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس فن کے علماء نے ابتدائی دور سے ہی کتاب مصاحف کی رہنمائی کے لیے رسم، ضبط اور وقف ووصل وغیرہ کے اُصول و قواعد پر مستقل تالیفات تیار کرناشروع کردی تھیں ۔ بہت سے دوسرے اِسلامی علوم کی طرح علم الضبط میں بھی تالیف کی ابتداء ’نقط و شکل‘ پر چھوٹے رسالوں یا کتابچوں سے ہوئی۔ آہستہ آہستہ محض علامات اور رموز کے بیان کے