کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 621
بھر میں کتابت مصاحف کے لیے علاماتِ ضبط کایہی طریقہ رائج ہے۔ البتہ ضرورۃ اوربعض جگہ رواجاًاس میں مزیداِصلاحات اور ترمیمات کا عمل جاری رہا ۔ الخلیل رحمہ اللہ کی وضع کردہ علاماتِ ضبط، کتابت مصاحف میں علامات ضبط کی اِصلاح یاتکمیل کی تیسری کوشش تھی جو ایک بڑے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ [دیکھئے حوالہ نمبر ۴۹ مذکورہ بالا]
۲۰۔ جب الخلیل بن احمد الفراہیدی رحمہ اللہ نے دوسری صدی ہجری کے اواخر میں علاماتِ ضبط کایہ نیاطریقہ وضع کیا، تو اس وقت تک ابوالاسود رحمہ اللہ کاایجادکردہ طریقہ نقاط(نقط) کتابت مصاحف کے لیے پوری دنیائے اسلام کے مغربی اور مشرقی حصوں میں استعمال ہورہا تھا،بلکہ اس میں مزید اِصلاحات اور نئی نئی علامات کی ایجاد سے یہ طریقہ زیادہ مکمل اور قرآن کریم کی قراءت اور تجوید کی بہت سی ضرورتوں اور نطقی و صوتی تقاضوں کے لیے کافی ومکتفی بن چکا تھا۔ اس لیے شروع میں کافی عرصہ تک لوگ کتابت ِمصاحف کے لیے الخلیل رحمہ اللہ کے طریقے کی بجائے ابوالاسود رحمہ اللہ والے طریق نقط کا استعمال ہی جائز سمجھتے تھے۔ الخلیل رحمہ اللہ کا طریقہ کافی عرصہ تک صرف کتب ِ شعر اور دیگر غیر قرآنی عربی عبارات میں استعمال ہوتا تھا،بلکہ اسی وجہ سے اورشکل المصحف کے طریقۂ نقط سے ممتاز کرنے کے لیے اسے شکل الشعر(یعنی شعروں میں حرکات لگانے کا طریقہ) بھی کہتے تھے۔ دونوں قسم کے ’شکل‘ کی صوری خصوصیات کی بنا پر ابو الاسود رحمہ اللہ والے طریقے کوالشکل المدور اور مؤخر الذکر کو الشکل المستطیل بھی کہتے تھے۔
٭ مغرب یعنی سپین اور افریقی ممالک میں تو کتابت ِ مصاحف کے لیے علاماتِ ضبط کے طور پر ابوالاسود رحمہ اللہ کے طریق نقط کو ایک قسم کی تقدیس کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ ابوعمرو عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ [م۴۴۴ھ]، جو رسم عثمانی اور علامات ضبط بذریعہ’النقط المدور‘کے بہت بڑے عالم تھے اور ان فنون میں انہوں نے یادگار تصانیف چھوڑی ہیں ، وہ اپنی کتاب ’المحکم فی نقط المصاحف‘ میں الخلیل رحمہ اللہ کے طریقے کے کتابت مصاحف میں استعمال کو ’بدعت‘ اور ابوالاسود رحمہ اللہ والے طریقے کو ’طریق ِ سلف‘ قرار دیتے ہیں اور بڑی دلیل ان کی یہ ہے کہ یہ طریقہ(یعنی نقط) ایک تابعی بزرگ(ابو الاسود رحمہ اللہ ) نے شروع کیا تھا اور انہوں نے کتابت ِ علامات کے لیے اپنے منتخب کاتب سے ’فانقط‘ اور ’اجعل نقطۃ‘ یعنی میری ہدایت کے مطابق نقطے لگاؤ، کے الفاظ کہے تھے۔ [المحکم ص۴۳، نیز غانم ص۵۰۱ ببعد]
۲۱۔ تعلیمی اور تدریسی اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے الخلیل رحمہ اللہ کا طریقہ یقیناً بہتر تھا اور ایک سیاہی کے استعمال کے باعث اس میں ایک سہولت بھی تھی، اس لیے بہت جلد یہ کتابت مصاحف میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔ عالم اسلام کے مشرقی حصے میں تو اس نے مکمل طور پر ابوالاسود رحمہ اللہ اور ان کے متبعین کے طریق نقط کی جگہ لے لی۔ خصوصاً خط نسخ کی ایجاد اورکتابت مصاحف میں اس کے استعمال کے بعد سے تو الخلیل رحمہ اللہ کے طریقے کو ہی قبول عام حاصل ہوا۔ علاماتِ ضبط بذریعہ نقاط کا طریقہ خط کوفی(جو کتابت مصاحف میں مستعمل خط جمیل کی پہلی صورت تھی) کے لیے تو زیادہ موزوں تھا، اس لیے کہ خط کوفی اکثر و بیشتر جلی قلم سے لکھا جاتا تھا۔ خط نسخ میں بالعموم نسبتاً باریک قلم استعمال ہوتا تھا اور اس کے لیے نقط بذریعہ حرکات کا طریقہ ہی زیادہ موزوں تھا اور شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ آہستہ آہستہ اس کا رواج بلادِ مغرب میں بھی ہوگیا۔ مشرق اور مغرب میں ساتوں صدی