کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 620
کے اوپر اوندھی شکل کی قوس( ) بنانے لگے۔ [الجبوری ص۱۵۳، الکردی ص۸۷-۸۶، الزنجانی ص۸۸ اور عبود ص ۴۰، المقنع ص۱۳۰ اس کا نمونہ دیکھئے آربری پلیٹ نمبر(اوّل)]اس کے بعد علامت تشدید کے طور پر صرف دال مقلوبہ( ) بھی استعمال ہونے لگی۔ [دیکھئے حوالہ نمبر ۳۷ مذکورہ بالا۔ نیز دیکھئے یہی کتاب(المحکم ص۵۰ ببعد اور الطرازورق ۲۸ الف و ب جہاں اس کو تشدید اہل مدینہ کہا گیا ہے۔] ۱۷۔ نقاط کی مشابہت سے پیدا ہونے والے التباس کے اِمکان کو کم کرنے کے لیے اور کتابت میں بیک وقت متعدد سیاہیوں کے استعمال کی صعوبت سے بچنے کے لیے ایک اور اصلاح کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ [قصہ ص۵۲، صفدی ص۱۳، فضائلی ص۱۳۸، الکردی ص۹۱، غانم ص۵۰۵ ببعد]مشہور نحوی اور واضع علم العروض الخلیل بن احمد الفراہیدی رحمہ اللہ [م۱۷۰ھ] نے وقت کی اس ضرورت کو نئی علامات ضبط ایجاد کرکے پورا کیا اور یہی وہ علامات ضبط ہیں جو کم و پیش آج بھی ہرجگہ نہ صرف کتابت مصاحف میں بلکہ کسی بھی مشکول عربی عبارت کے لیے استعمال ہوتی ہیں ۔ ۱۸۔ الخلیل رحمہ اللہ نے نقط اعجام کو متن کی سیاہی سے لکھنا، اسی طرح برقرار رکھا بلکہ اس نے حرفوں کے نقطوں کی تعداد اور ان کی جگہ کے تعین کے اَسباب وعلل بھی بیان کئے۔ [تفصیل کے لیے دیکھئے: المحکم ۳۶-۳۵ اور غانم ص۵۵۵ ببعد]البتہ اس نے الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا، یعنی فتحہ(زبر) کے لیے حرف کے اوپر ایک ترچھی لکھیر(-َ) ، کسرہ(زیر) کے لیے حرف کے نیچے ایک ترچھی لکیر(-ِ) اور ضمہ(پیش) کے لیے حرف کے اوپر ایک مخفف سی واؤ کی شکل(-ُ) لگانا تجویز کیااور تنوین کے لیے ایک کی بجائے دو دو حرکات(-ً -ٍ -ٌ) مقرر کیں ۔ ٭ ان حرکات ثلاثہ کے علاوہ الخلیل رحمہ اللہ نے پانچ نئی علامات ضبط اِیجاد کیں یا ان کے لیے حرکاتِ ثلاثہ کی طرح ایک نئی صورت وضع کی۔ الخلیل رحمہ اللہ کی علامات دراصل حرکت کی صوتی مناسبت سے کسی باریک سے حرف یا علامت کے نام یا اس کے کسی حصے کی مخفف شکل تھیں ۔گویا ہرعلامت ِضبط اپنے مدلول پردلالت کرتی تھی، مثلاً الخلیل رحمہ اللہ نے فتحہ کے لیے ’الف صغیرہ مبطوحہ ‘(چھوٹا سا ترچھا الف)،کسرہ کے لیے یاء کامخفف سرا(-) اور ضمہ کے لیے واؤ کی مخفف صورت اختیار کی۔ [الطراز ورق ۵/ب، الکردی ص۹۱] اسی طرح اس نے سکون کے لیے حرف ساکن کے اوپر ’ہ‘ یا ’ح‘ کی علامت وضع کی، جو لفظ ’جزم‘ کے ج یا م کے سرے کا مخفف نشان ہے۔ شدہ یا تشدید کے لیے اس نے حرف مشدد کے اوپر ’ ‘ لگانا تجویز کیا، جو ’ش‘ کے سرے سے ماخوذ ہے۔ مدہ یا تمدید کے لیے حرف ممدود کے اوپر ’آ‘ کی علامت اختیارکی جو دراصل لفظ ’مد‘ ہی کی دوسری یا مخفف شکل ہے۔ اسی طرح ’ہمزہ الوصل‘ کے لیے الف کے اوپر’صـ‘ یعنی ’صلہ‘ کے ’ص‘ کی ایک صورت اورہمزہ القطع کے لیے ’أ ‘ کی علامت وضع کی ،جو حرف عین(ع) کے سرے سے ماخوذ ہے۔ کہتے ہیں کہ الخلیل رحمہ اللہ نے ’روم اور اشمام‘ کے لیے بھی علامات وضع کی تھیں ۔ ۱۹۔ الخلیل رحمہ اللہ کی ایجاد کردہ علامات کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں کتابت کے لیے دو سیاہیاں استعمال کرنا لازمی نہ تھابلکہ متن(قرآن) اورعلاماتِ ضبط سب ایک ہی سیاہی سے لکھے جانے لگے۔ اس سے کتابت میں صعوبت اور قراءت میں التباس کے اِمکانات کم تر ہوگئے۔ اس لیے یہ طریقہ بہت جلد مقبول ہوگیا۔آج کل دنیا