کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 619
فضائلی ص۱۳۷] البتہ ایک اور بات جو خصوصاًقابل ذکر ہے، اگرچہ اس کا تعلق براہ راست علاماتِ ضبط سے نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ نصر رحمہ اللہ اور یحییٰ رحمہ اللہ نے حروفِ تہجی کی روایتی أبجد ہوَّز حُطِّی والی عبرانی ترتیب بدل کر ان کو تقریباً یہ ترتیب دی، جو اب تک ہمارے ہاں رائج ہے۔ ترتیب میں یہ تبدیلی دراصل اس مقصد کے لیے عمل میں لائی گئی تھی تاکہ یکساں صورت والے حروف کو یکجا کردیا جائے۔ [الخط العربی ص۱۲، الکلاک ص۵۲ بحوالہ الرافعی، فضائلی ص۱۳۸،غانم ص۵۷۱ بحوالہ البلوی] ۱۴۔ ابوالاسود رحمہ اللہ کے نقطوں کی طرح یحییٰ رحمہ اللہ اور نصر رحمہ اللہ یا حجاج کے نقاطِ حروف اور ترتیب تہجی بھی حجاز کے راستے مغرب میں بھی قدرے اختلاف یاتنوع کے ساتھ اختیار کرلیے گئے، مثلاً مغرب میں ’ف‘ کے سرے کے نیچے ایک نقطہ اور ’ق‘ کے اوپر ایک نقطہ مثل ’ف‘ اختیار کیا گیا۔ وہاں کسی لفظ کے آخر پر واقع ہونے کی صورت میں ف ق ن اور ی کو کسی قسم کے علامتی نقطوں کے بغیر لکھا جانے لگا۔ اسی طرح اہل مغرب(خیال رہے اسلامی تاریخ میں مغرب سے مراد مصر کے علاوہ تمام افریقی ممالک اور اندلس ہوتے ہیں ، آج کل صرف مراکش کو بھی مغرب کہہ لیتے ہیں ) کے ہاں عربی کے حروف تہجی کی ترتیب بھی مختلف رائج ہوگئی۔ اہل مشرق(مصر اور تمام ایشیائی ممالک) میں تو یہ ترتیب یوں ہے: ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ل م ن و ہ(بعض جگہ ہ و ) اور ی۔ اس کے برعکس مغرب میں ’ز‘ ’ر‘ کے بعد سے یہ ترتیب اختیار کی گئی: ط ظ ک ل م ن ص ض ع غ ف ف س ش ہ و ی [المحکم ص۳۶، المصور ص۳۳۵و۳۳۸] ۱۵۔ عباسی دور کے ابتدائی کئی برسوں بلکہ تقریباً ایک صدی تک کتابت مصاحف کا یہی طریقہ رائج رہا،یعنی حرکات بذریعہ رنگدار نقاط اور حرفوں کے نقطے مقابلۃً ان سے ذرا چھوٹے مگر کتابت متن والی سیاہی سے لکھنا، تاہم یہ دو دو قسم کے نقطے لکھنے اور پڑھنے والے ، ہر دو، کے لیے صعوبت اور التباس کا سبب بنتے تھے، اس لیے آہستہ آہستہ اعجام کی نقطے محض قلم کے قط کے برابر ہلکی ترچھی لکیروں کی صورت میں ظاہر کئے جانے لگے۔ [غانم ص ۶۲۔۵۶۱]البتہ جب عربی خط میں تحسین و جمال کے پہلو ظاہر ہوئے اور مختلف حسین و جمیل اقلام(اَقسام خط) ایجاد ہوئے تو ’نقط اعجام‘ کے لیے بھی، تحریر کے حسن و جمال اور حروف کے ہندسی تناسب کو ملحوظ رکھتے ہوئے، مناسب قط اور نقاط کی وضع اور شکل کے لیے بھی خوشخطی کے قواعد مقرر کر لیے گئے۔ ۱۶۔ دریں اثناء، ابوالاسود رحمہ اللہ اور یحییٰ رحمہ اللہ و نصر رحمہ اللہ کے تلامذہ اور متبعین نے اس طریقے(نقط الاعراب) کو وسعت دیتے ہوئے کچھ مزید علامات وضع کیں ، مثلاً ’سکون‘ کے لیے چھوٹی سی افقی(سرخ) لکیر باریک قلم سے حرف کے اوپر یا نیچے مگر اس سے الگ لگانے لگے۔ [المحکم(مقدمہ محقق) ص۳۹ جہاں رنگدار نمونہ بھی دیا گیاہے]اسی طرح ’تشدید‘ کے لیے حرف کے اوپر قوس کی اُفقی شکل( ) کا نشان اختیار کیاگیا، جس کے دونوں سرے اوپر اٹھے ہوتے تھے۔ حرف منون پر فتحہ(زبر) کی صورت میں سرخ نقطہ اس قوس کے اندر( ) کسرہ(زیر)کے لیے نیچے( ) اور ضمہ(پیش) کے لیے یہ نقطہ قوس کے دائیں سرے کے اوپر لگاتے( )۔ پھر کچھ عرصہ بعد علامات تشدید والی قوس ( ) پر حرف منون کی حرکت کے لیے نقطہ لگانا ترک کردیا گیا اور اس کی بجائے مشدد مفتوح حرف کی صورت میں ’قوس تشدید‘حرف کے اوپر( ) اور مکسور مشدد کے لیے حرف کے نیچے الٹی قوس( ) اور مشدد(مضموم