کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 618
٭ ابوالاسود رحمہ اللہ نے ابتداء صرف حرکاتِ ثلاثہ اور تنوین کو ہی نقطوں سے ظاہر کیا۔ [المقنع: ص۱۲۵](باقی علامات بعد کی ایجاد ہیں )کتابت مصاحف میں اِصلاح یا تکمیل رسم عثمانی کے لیے علاماتِ ضبط مقرر کرنے کی یہ پہلی کوشش تھی اور یہ علامات بھی تمام الفاظ کی بنائی حرکات کے لیے نہیں ،بلکہ زیادہ تر صرف اِعرابی حرکات کوظاہر کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھیں اور اس لیے ہی اسے نقطۃ الاعراب کہتے تھے۔ ۱۰۔ ابوالاسود رحمہ اللہ کا یہ طریقہ بہت جلد کوفہ کے بعد بصرہ اور پھر مدینہ منورہ تک کے مصاحف میں استعمال ہونے لگا۔ اگرچہ نقطوں کے لیے مختلف شکل اور مختلف جگہ بھی استعمال ہونے لگی، مثلاً کوئی نقطے کو گول رکھتا اور اسے ’النقط المدور‘بھی کہتے تھے۔بعض نقطے کو مربع شکل میں لکھتے اور بعض اسے اندر سے خالی گول دائرہ(O)ہی بنا دیتے۔ [ الکردی: ص۸۷، الجبوری ص۱۵۳]مکہ مکرمہ میں ضمہ(پیش)کا نقطہ حرف کے بائیں طرف سامنے کی بجائے اوپراورفتح(زبر) کا نقطہ حرف کے اوپر کی بجائے اس سے پہلے دائیں طرف لگانے کا رواج ہوگیا۔ [المنجد، ص۱۲۷] کتابت مصاحف میں علاماتِ ضبط کا یہ پہلا تنوع تھا، جس کی بنا پر عموماً یہ پتہ چل جاتا تھا کہ کس مصحف کی کتابت کس شہر یا کس علاقے میں ہوئی ہے۔ ۱۱۔ ابوالاسود رحمہ اللہ کی اس ’اصلاح‘کے باوجود ابھی تک یکساں صورت رکھنے والے حروف کی باہمی تمیز کے لیے کوئی تحریری علامت نہیں تھی اور ان کی درست قراءت کا انحصارتلقِّی و سماع پر ہی تھا۔ [صفدی: ص۱۳]عبدالملک اُموی رحمہ اللہ کے زمانے میں جب عربی کو دفتری زبان بنا دیا گیاتونہ صرف قرآن کریم، بلکہ عام عربی تحریر کو بھی اس التباس سے بچانا ضروری معلوم ہوا۔ خلیفہ کی اس خواہش کو عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے یوں پورا کیاکہ اس کے حکم پر بصرہ کے علماء میں سے ابوالاسود رحمہ اللہ ہی کے دو شاگردوں نصر بن عاصم رحمہ اللہ اور یحییٰ بن یَعْمَر رحمہ اللہ نے عربی زبان کے اب تک رائج اٹھارہ حرفوں کو ان کی آوازوں کے مطابق اٹھائیس حرفوں میں بدلا اور چھوٹے چھوٹے نقطوں کے ذریعے متشابہ حروف کو باہم متمیز کردیا۔ خیال رہے کہ ان اٹھائیس حروف کے ان کی آوازوں کے لحاظ سے نام پہلے سے الگ الگ موجود تھے۔ صرف ان کی کتابت کی شکلیں اٹھارہ تھیں ، مثلاً ’ح‘ کو ہی ج ح خ کہتے تھے۔ حرفوں پر اس قسم کے نقطے لگانے کے عمل کو ’اعجام‘ کہتے ہیں ۔ حرکات اور اَصوات کے لیے الدؤلی رحمہ اللہ کے رائج کردہ نقطوں کے برعکس ، اعجام کے نقطے اسی سیاہی سے لگانے تجویز ہوئے، جس سے اصل متن لکھا گیا ہو۔ [قصۃ ص۵۲، الزنجانیص۹۰]کتابت مصاحف میں حروف کی باہم پہچان اور تمیز کے لیے یہ دوسری اِصلاحی کوشش تھی۔ ۱۲۔ ان دونوں قسم کے نقطوں میں فرق کرنے کے لیے الگ الگ اِصطلاحات تھیں ۔ پہلے(ابوالاسود رحمہ اللہ والے) طریقے کونقط الحرکات، نقط الاعرابیانقط الشکل کہتے تھے، جبکہ دوسری قسم(نصر رحمہ اللہ اور یحییٰ رحمہ اللہ کے طریقے پر حرفوں کے نقطے لگانے)کو نقط الاعجام کہتے تھے۔ ۱۳۔ اس فن کی کتابوں میں مختلف حرفوں کے لیے مختلف تعداد کے نقطے(ایک ، دو یا تین) اور ان کی جگہیں (اوپر یا نیچے) مقرر کرنے کی دلچسپ وجوہ اور اعجام کی مختلف صورتیں بھی بیان کی گئی ہیں ،جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ [تفصیل کے لیے دیکھئے: ابن درستویہ ص۵۴ ببعد، المحکم ص۳۵ ببعد، الکردی ص ۹۵۔۹۴، غانم ص۵۵۶ ببعد اور