کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 617
سماع پرمبنی ہونے کے باعث اس کی قراءت اور تلاوت عموماً درست ہی رہی۔ بالکل ایسے ہی جیسے انگریزی میں Put یا Cut اور Food یا Footکی قسم کے لفظوں میں تلفظ کافرق معلّم کی شفوی تعلیم پر منحصر ہے، نہ کہ طریق اِملاء اور ہجاء پر۔ ۸۔ پہلی صدی ہجری کے نصف آخر تک لاکھوں غیر عرب بھی اسلام میں داخل ہوکر قرآن بلکہ عربی زبان بھی سیکھ رہے تھے۔کسی زبان کی صرف قراءت کی تعلیم بلکہ اس کا عام بول چال میں استعمال تک بھی کسی آدمی کو اہل زبان کی سی مہارت عطا نہیں کرسکتا۔ عراق، شام اورمصر اس وقت تک اگرچہ بڑی حد تک عربی بولنے والے علاقے بن چکے تھے، مگر عوام میں جہاں لحن کے ساتھ عام عربی بولنے کا رواج بڑھا وہاں ساتھ ہی قرآنِ کریم کی تلاوت میں بھی اس ’غلط سلط عربی دانی‘ کا مظاہرہ ہونے لگا۔ آج بھی صرف دارجہ یعنی عوامی زبان بولنے والے ناخواندہ عرب قرآن خوانی میں ایسی غلطیاں عام کرجاتے ہیں ۔ ۹۔ باتفاق روایات ابوالاسود الدؤلی رحمہ اللہ تابعین میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم نحو کی بنیاد ڈالی اور ساتھ ہی قرآن مجید میں نقطوں کے ذریعے شکل(حرفوں کی آواز کو علامات کے ذریعے متعین کرنا)کے ایک نظام کی ابتداء کی۔ [مختلف روایات کے حوالوں کے لیے دیکھئے: غانم ص۴۹۱ اور ابوالاسود رحمہ اللہ کی شخصیت کے تعارف کے مصادر کے لیے اسی(غانم) کا ص ۹۸-۴۹۷(حواشی نمبر ۳۳ تا ۴۱)، نیز الأعلام جلدسوم ص۳۴۰] ابوالاسود رحمہ اللہ کے اس کام پر آمادہ ہونے کے محرکات کی مختلف روایات ہیں ۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس کا باعث ان کا عبیداللہ بن زیاد رحمہ اللہ کا اَتالیق ہونا بنا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ ایک موقع پر انہوں نے خود اپنی بیٹی کو غلط عربی بولتے سنا۔ تیسری وجہ یہ ہوئی کہ کسی عدالت میں مدعی نے اپنا کیس بالکل غلط عربی میں پیش کیا۔ چوتھی اور مشہور روایت، جس کا تعلق بھی براہ راست قرآن سے ہے یہ ہے کہ انہوں نے کسی آدمی کو سورۃ التوبہ کی تیسری آیت میں لفظ’ورسولَہ‘ جر کے ساتھ پڑھتے سنا ۔[الجبوری ص۱۵۱،غانم ص ۴۵۱، الفہرست ص۶۰، الکردی ص۸۵،۸۶]ممکن ہے یہ ساری وجوہ ہی درست ہوں ، جن کی بنا پر ابوالاسود رحمہ اللہ نے نحو کے کچھ قواعد بھی مرتب کرنے کی ابتداء کی۔ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے تیس آدمیوں کا انٹرویو لینے کے بعد ایک نہایت درست لہجے اور صاف تلفظ والے سمجھدار پڑھے لکھے آدمی کاانتخاب کیا۔[الزنجانی: ص۸۸] ایک مصحف دے کر اسے اپنے سامنے بٹھایا اور خود آہستہ آہستہ قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔شخص مذکورہ کو الفاظ کے تلفظ کے وقت قاری کے منہ، ہونٹوں اور زبان کی حرکات کے لیے حروف پر مختلف جگہ پر سرخ سیاہی سے ایک خاص انداز میں نقطے لگانے کی ہدایت کی۔ ایک دن یا ایک مجلس میں کئے ہوئے کام پر وہ خود نظرثانی کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ پورے قرآن مجید پر ’نقاط شکل‘ لگانے کا کام مکمل ہوگیا۔ ٭ ابوالاسود رحمہ اللہ کے کام کاخلاصہ یہ ہے کہ ۱۔ انہوں نے حرفوں کی آواز(حرکت) کونقطوں سے ظاہر کیا۔ ۲۔ یہ نقطے قرآن کی کتابت میں استعمال شدہ(کاپی) سیاہی سے مختلف رنگ میں لگائے گئے۔بالعموم یا کم از کم ابتداء میں ، ان علامتی نقطوں کے لیے سرخ رنگ ہی استعمال کیاگیا۔ ۳۔ زبر(فتحہ) کے لیے متعلقہ حرف کے اوپر ایک نقطہ ، زیر(کسرہ) کے لیے حرف کے نیچے ایک نقطہ اور پیش(ضمہ) کے لیے حرف کے سامنے یعنی آگے بائیں طرف ایک نقطہ اور تنوین کے لیے دو دو نقطے مقرر کئے گئے۔