کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 616
’حرب‘ کو حسب موقع حرب(جنگ)، حرث(کھیتی)، جرب(خارش)، حزب (گروہ) یا خرب(ویرانہ) اسی طرح بہ آسانی پڑھ لیتے تھے، جیسے ایک انگریزی دان حسب موقع Gیا S یا H کی درست آواز جان لیتا ہے یا عبارت میں Lead اور Read کی قسم کے الفاظ کا مطلوبہ درست تلفظ سمجھ جاتا ہے۔ ۶۔ عہد نبوی کے بعد عہد صدیقی میں سرکاری اہتمام سے ’اُم‘ یا ماسٹر کاپی کے طور پر قرآن کریم کا ایک نسخہ تیار کیا گیا جسے ’مصحف‘ کا نام دیا گیا اور اس کے بعد سے لفظ مصحف بمعنی نسخہ قرآن استعمال ہونے لگا۔ عہد عثمانی میں اسی ماسٹرکاپی(مصحف صدیقی)سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایک بورڈ کی زیرنگرانی(کم از کم) چھ مصاحف پر مشتمل ایک نیا قرآنی ایڈیشن تیار کیاگیا۔ ان میں سے ایک مصحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی ذاتی نگرانی میں رکھا اور ایک ایک مصحف مکہ، مدینہ، کوفہ ، بصرہ اور دمشق کی مرکزی مساجد میں پبلک کے استفادہ کے لیے رکھا گیا، تاکہ لوگ ان نسخوں سے اپنے لیے ذاتی مصاحف تیار کرا سکیں ، کیونکہ اب یہی مصاحف باجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اُمت کے لیے صحت کتابت کا معیار قرار دیئے گئے تھے۔ ان مصاحف کی تیاری کاایک معروف واقعہ ہے اور اس کی تفصیلات اس وقت موضوع بحث بھی نہیں ، البتہ ہمارے موضوع کی مناسبت سے ان مصاحف کے ضمن میں دو باتیں قابل ذکر ہیں : ٭ اَولاً:یہ کہ ان مصاحف کی کتابت بھی عربی حروف کی ان اٹھارہ صورتوں کے ساتھ ہوئی تھی یعنی ان میں حرکات تو درکنار، مشابہ حروف کو متمیز کرنے کے لیے نقطے بھی نہیں لگائے گئے تھے۔[صفدی:ص۱۳، الجبوری: ص۱۵۵، المنجد:ص۱۲۶ اور غانم: ص۴۶۸]تاہم کاتبین مصاحف عثمانی نے ان نسخوں (مصاحف) میں حرفوں کو نقطوں سے بھی مطلقاً عاری رکھا۔ اکثر اہل علم کے نزدیک یہ تجرید اور تعریہ عمداً اور دانستہ تھا اور اس سے کوئی حکمت اور مصلحت(مثلاً احتمال القراء تین) وابستہ تھی، جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ اس زمانے میں شائع عام طریق ِکتابت کا ایک مظہر تھا ۔ بہرحال وجہ جو بھی تھی یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ یہ مصاحف نقط اور اعجام سے معریٰ تھے اور اسی لیے ہر ایک نسخہ کے ساتھ پڑھانے والاایک مستند قاری معلّم بھی بھیجا گیا تھا۔ [حق التلاوۃ: ص۱۴۴] ٭ ثانیاً :یہ کہ یہی مصاحف عثمانی اس وقت سے لے کر آج تک دنیا بھر میں موجود مصاحف(قرآنی نسخوں ) کی اصل ہیں ۔ قرآن کریم کا ہر نسخہ بنیادی رسم الخط(Spelling) کی حد تک ان مصاحف عثمانی میں سے کسی ایک ....یا ان سے ہوبہو نقل کردہ کسی ایک نسخے کے عین مطابق ہوتاہے اور ہونا چاہئے۔ اسی کو رسم عثمانی کا التزام کہا جاتا ہے اور جو درحقیقت ’رسم عہد نبوی‘ کاالتزام ہے۔ [غانم:ص۴۶۷] ان چھ نسخوں (مصاحف)میں سے کوئی اس وقت دنیا میں موجود ہے یا نہیں ۔یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے، لیکن ان چھ نسخوں کی صوری کیفیات،ان کی املائی خصوصیات اور بعض جزوی اِختلافات کے بارے میں اتنے دقیق تقابلی ملاحظات تک کی اتنی تفصیلات ہم تک پہنچی ہیں کہ اگر آج کہیں ان نسخوں میں سے کسی ایک کی موجودگی کا دعویٰ کیا جائے تو اس کی صحت یا عدم صحت کو ان تفصیلات کی روشنی میں پرکھا جاسکتا ہے۔ کتابت مصاحف میں ان نسخوں کے رسم الخط اور طریق ہجاء سے کوئی ادنیٰ سا اختلاف بھی اہل علم کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ [لنگز(۱): ص۱۱] ۷۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایڈیشن یعنی مصاحف کی تیاری کے قریباً چالیس سال بعد تک دنیائے اسلام میں قرآن کریم کی کتابت اسی طرح بغیر نقاط اور بغیر حرکات کے جاری رہے۔ [الزنجانی: ص۸۹، الجبوری ص۱۵۸۔ الکردیص۹۳ ،غانم ص۵۳۹ ببعد]تاہم قرآن کریم کی تعلیم عہد رسالت سے ہی محض تحریر کی بجائے تلقِّی اور