کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 615
کتابت والے مصحف(نسخہ قرآن) کی ضرورت ہر مسلمان کو پڑتی ہے اور اس مقصد کے لیے کتابت کی صحت علم الضبط کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ۴۔ علم الضبط کی تاریخ اور اس کے ارتقاء کی بات کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تین اِصطلاحات کی وضاحت کرلی جائے جوکتابت مصاحف کے ضمن میں اکثر استعمال ہوتی ہیں اور جو عموماً ’ضبط‘ کے ہم معنی یا ’ہم مقصد‘ ہیں اور وہ یہ ہیں : (۱) نقط (۲) شکل اور (۳) اعجام ٭ ’نقط‘ کے لغوی معنی تو کسی حرف پرنقطہ لگانا ہے، لیکن اصطلاحا اس سے مراد وہ ’نظام نقاط‘ ہے جو ہمارے موجودہ نظام حرکات کا پیشرو تھا اور جسے مشہور تابعی ابوالاسود دؤلی رحمہ اللہ نے کلماتِ قرآن کے جزوی ضبط کے طور پر ایجاد کیا تھا اور جس میں حرکات اور دیگر علامات ِ ضبط کا کام نقطوں سے لیا جاتا تھا،( اور جس کا تذکرہ ابھی آگے بیان ہوگا۔) ٭ ’شکل‘ کے لفظی معنی جانور کے پاؤں میں زنجیر ڈالنے کے ہیں ، مگر اصطلاحا کلمات کو علامات اور حرکات سے مقید کرنا مراد ہوتا ہے اور اگرچہ ’شکل‘ کا لفظ’ضبط‘کی کسی بھی صورت کے لیے استعمال ہوتاہے، تاہم زیادہ تر شکل سے مراد ضبط ِکلمات کا وہ طریقہ لیا جاتا ہے جو الخلیل بن احمدالفراھیدی رحمہ اللہ نے ایجاد کیا تھا۔(اس کا بیان بھی آگے آرہا ہے)جس عبارت کے ہر ہر حرف پر حرکات اورعلامات ِ ضبط ڈالی گئی ہوں اسے ’مشکول عبارت‘ کہتے ہیں ۔ ٭ ’اعجام‘ کااصل مطلب بھی کسی حرف پرنقطہ یا نقطے ڈال کر اسے دوسرے مشابہ حرف سے متمیز کرنا ہے،مثلاً د/ذ یا ت/ث وغیرہ، چونکہ یہ بھی ’تلفظ‘ ہی کی ایک صورت بنتی ہے لہٰذا دونوں میں فرق کرنے کے لیے ابوالاسود رحمہ اللہ والے طریق نقط کو ’نقط الشکل‘ یا ’نقط الاعراب‘ کہتے ہیں اور دوسرے کو ’نقط الاعجام‘کہتے ہیں ۔ اگرچہ بعض قدیم مؤلفین نے اعجام کے لیے مطلقاً نقطہ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔[مثلاً ابن درستویہ: ص۵۳ ببعد] ٭ ضبط کی اصطلاح ان تینوں اِصطلاحات کے بعد وجود میں آئی۔ علم الضبط میں عموماً نقطہ اور شکل کے قواعد سے بحث کی جاتی ہے اور اعجام کا ذکر اس میں کم ہی کیا جاتا ہے۔ تاہم تاریخی عمل کے لحاظ سے اعجام بھی ’تحریک ضبط قرآن‘ کا ہی ایک حصہ تھا۔ [دیکھئے :غانم:ص۹۰-۴۸۸ اور المحکم ’مقدمہ محقق‘ ص۲۷-۲۶]اور اسی تحریک کے اَسباب و دواعی یعنی علم الضبط کی ضرورت اور اس کے ارتقاء کا جائزہ ہی اس وقت ہمارا موضوع بحث ہے۔ ۵۔ قرآن کریم کی یہ(عہد نبوی میں ) کتابت عربی خط میں تھی۔ اس وقت تک عربی زبان کی ابجد بنیادی طور پر اور تعلیم کتابت کی حد تک صرف اٹھارہ حروف پر مشتمل تھی، بلکہ متصل لکھنے کی صورت میں حروف کی یہ بنیادی شکلیں صرف پندرہ ہی رہ جاتی تھیں ۔ حروف کی یہ اٹھارہ یا پندرہ صورتیں اٹھائیس آوازوں کے لیے استعمال ہوتی تھیں ۔ [ابن درستویہ : ص۶۶،، الخلیفہ ص۲ او رالمورد، ص۲۲۳]کیونکہ ان حرفوں میں سے اکثر کی ایک سے زائد آوازیں تھیں ، انگریزیH,G,Cیا S کی طرح، مثلاً ’ب‘ ت اور ث کے لیے اور ’ح‘ ج ح اور خ کے لیے، بلکہ بعض حرفی رموز پانچ آوازوں تک کے لیے استعمال ہوتے تھے، مثلاً ایک نبرہ(دندانہ) ’ا‘ ہی ب ت ث ن اور ی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ صرف چھ حروف ’ا ک ل م و اور ہ‘ ایسے تھے جواپنی صرف ایک آواز رکھتے تھے۔ عرب کے لکھے پڑھے لوگ اپنے علم ِزبان کی بناء پر مختلف حروف کی مطلوبہ آواز پہچان کر پڑھ سکتے تھے، مثلاً لفظ